1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام میں فائربندی کی عبوری ڈیل طے پا گئی ہے، جان کیری

عاطف بلوچ21 فروری 2016

امریکی وزیر خارجہ نے اپنے روسی ہم منصب سے گفتگو کے بعد کہا ہے کہ شام میں جنگ بندی معاہدے کے نفاذ کے لیے مثبت پیشرفت ہوئی ہے۔ ادھر ترک صدر نے کہا ہے کہ شام میں کرد جنگجوؤں کے خلاف کارروائی ’جائز دفاع‘ کے زمرے میں آتی ہے۔

https://p.dw.com/p/1HzNn
München Sicherheitskonferenz - John Kerry
امریکی وزیر خارجہ نے اپنے روسی ہم منصب سے گفتگو کے بعد کہا ہے کہ شام میں جنگ بندی معاہدے کے نفاذ کے لیے مثبت پیشرفت ہوئی ہےتصویر: Reuters/M. Dalder

امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اتوار کے دن اردنی دارالحکومت عمان میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ شام میں سیز فائر کے لیے ایک ماہ قبل طے پانے والے معاہدے کی شرائط پر روس اور امریکا میں اتفاق رائے ہو گیا ہے۔

اردن کے دورے پر گئے ہوئے کیری نے اتوار کے دن کہا کہ انہوں نے روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف سے ٹیلی فون پر بات چیت کی ہے اور ماسکو حکومت اصولی طور پر ایک عبوری ڈیل پر رضا مند ہو گئی ہے۔

کیری کا کہنا تھا، ’’ ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ مجھے توقع ہے کہ امریکی اور روسی صدور جلد ہی آپس میں گفتگو کرتے ہوئے تفصیلات طے کر لیں گے۔‘‘ کیری کے مطابق شام میں جنگ بندی کی کوششوں میں پیشرفت ہوئی ہے اور وہ امید کرتے ہیں کہ آئندہ چند روز میں ٹھوس نتائج سامنے آ جائیں گے۔

شامی کردوں پر حملے دفاع کے زمرے میں آتے ہیں، ترک صدر

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے شامی کرد باغیوں کے خلاف عسکری کارروائی کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کارروائی ملکی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے کی جا رہی ہے۔ عالمی طاقتوں نے انقرہ حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شام میں سرحد پار فوجی کارروائی سے گریز کرے کیونکہ اس سے شامی تنازعہ مزید پیچیدہ ہو جائے گا۔ ترک افواج گزشتہ ہفتے سے شمالی شام میں کرد اتحادی فورسز پرگولہ باری کر رہی ہے۔

ترک حکومت کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے انقرہ میں ہوئے خونریز حملے میں شامی کرد باغیوں کا ہاتھ تھا۔ اس خود کش حملے میں اٹھائیس افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ساتھ ہی انقرہ کو ایسے خدشات بھی لاحق ہیں کہ ترک سرحد کے نزدیک شامی علاقوں میں فعال یہ کرد باغی وہاں طاقت جمع کرتے ہوئے اپنے ٹھکانے مضبوط بنا سکتے ہیں۔

اس صورتحال کے تناظر میں رجب طیب ایردوآن نے استنبول میں اپنے ایک خطاب میں کہا کہ دہشت گردی کے خطرات میں ترکی کے ان اقدامات کو غیرقانونی قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ ڈوگاان نیوز ایجسنی کے مطابق صدرایردوآن نے شامی کرد باغیوں کے خلاف جاری کارروائی پر تبصرہ کرتے ہوئے مزید کہا ہے کہ ترکی کو جس طرح کی صورتحال کا سامنا ہے، اس میں وہ ٹھیک اور جائز ردعمل ظاہر کر رہا ہے۔

ترک صدر کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے ، جب امریکا، پیرس، روس اور دیگر عالمی طاقتوں نے انقرہ حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ شام میں اپنے کرد فائٹرز YPG کے خلاف عسکری آپریشن کو ترک کر دے۔ فرانسیسی صدر اولانڈ نے خبردار کیا ہے کہ شامی تنازعے میں ترکی کا بڑھتا ہوا کردار ترکی اور روس کے مابین جنگ کا باعث بن سکتا ہے۔ شمالی شام میں داعش کے خلاف برسر پیکار شامی کردوں کو امریکا کی حمایت بھی حاصل ہے۔

تاہم ترک حکومت کا کہنا ہے کہ YPG دراصل باغی ’کردستان ورکرز پارٹی‘ کی ایک برانچ ہے۔ کردستان ورکرز پارٹی کو ترکی سمیت امریکا اور یورپی یونین نے بھی کالعدم قرار دے رکھا ہے۔ یہ باغی گروہ گزشتہ تین دہائیوں سے ترکی میں علیحدگی پسندگی کی ایک مسلح تحریک جاری رکھے ہوئے ہے۔

Türkei Anschlag in Ankara - Präsident Recep Erdogan
رک صدر نے کہا ہے کہ شام میں کرد جنگجوؤں کے خلاف کارروائی ’جائز دفاع‘ کے زمرے میں آتی ہےتصویر: picture-alliance/dpa/Turkish President Press Office

ترکی میں اغوا شدہ صحافی رہا

ترکی کی سرکاری نیوز ایجنسی انادولُو کے مطابق اُس کے اغوا شدہ تین رپورٹروں کو رہا کر دیا گیا ہے۔ ترک میڈیا کے مطابق تینوں صحافیوں کو جنوب مشرقی ترکی میں سرگرم کالعدم کردستان ورکرز پارٹی کے عسکریت پسندوں نے اغوا کیا تھا۔

ان میں ایک رپورٹر، دوسرا کیمرہ مین اور تیسرا فوٹوجرنلسٹ ہے۔ قبل ازیں نیوز ایجنسی انادولُو نے بھی اپنی ویب سائٹ پر صحافیوں کی رہائی کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ کرد عسکریت پسندوں نے انہیں کسی نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا تھا تاہم دو دن بعد انہیں آزاد کر دیا گیا۔ اغوا کی یہ واردات جنوب مشرقی شہر مردین میں رونما ہوئی تھی۔