1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام میں روسی فوجوں کی غیر معینہ مدت تک تعیناتی: قانون منظور

علی کیفی
14 اکتوبر 2016

روس نے ایک قانون منظور کرتے ہوئے شام میں روسی افواج کی غیر معینہ تعیناتی سے متعلق دمشق حکومت کے ساتھ طے ہونے والی ایک ڈیل کی توثیق کر دی ہے۔ اس کے تحت مشرقِ وُسطیٰ میں روسی افواج کے مستقل اڈوں کی راہ ہموار ہو جائے گی۔

https://p.dw.com/p/2REP8
Russland Syrien Assad bei Putin
بیس اکتوبر 2015ء: روسی صدر ولادیمیر پوٹن ماسکو میں شامی صدر بشار الاسد کے ساتھ ملاقات کر رہے ہیںتصویر: Reuters/RIA Novosti/Kremlin/A. Druzhinin

ماسکو حکومت کے مطابق روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے جمعہ چَودہ اکتوبر کو شامی حکومت کے ساتھ طے ہونے والی اُس ڈیل کی توثیق کر دی، جس کے تحت روس شام میں واقع حمیمیم ایئر بیس کو مستقل طور پر استعمال کر سکے گا۔

دمشق حکومت کے ساتھ یہ ڈیل ’غیر معینہ‘ مدت تک کے لیے ہے اور اس اڈے کو مستقل بنانے کے لیے قانونی بنیادیں فراہم کرتی ہے۔ اس ایئر بیس اور طرطوس کے نزدیک واقع بحری اڈے کی صورت میں روس مشرقِ وُسطیٰ میں اپنی مستقل اسٹریٹیجک موجودگی رکھ سکے گا۔

حمیمیم کے فضائی اڈے پر روس کے اندازاً چار ہزار فوجی اور درجن بھر روسی طیارے تعینات ہیں۔ شام کے طرطوس نامی بندرگاہی شہر کے قریب روسی بحری اڈہ سوویت دور سے چلا آ رہا ہے۔

شہری ہلاکتیں بڑھتی ہوئی

اِس ڈیل کی توثیق ایک ایسے وقت ہوئی ہے، جب اپوزیشن کارکنوں کے مطابق شمالی شہر حلب میں باغیوں کے زیرِ کنٹرول علاقوں پر فضائی حملے تیز تر ہو چکے ہیں اور حلب کے شمال اور جنوب میں شامی فوج اور باغیوں کے درمیان جھڑپیں بھی زوروں پر ہیں۔

برطانیہ میں قائم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق مشرقی حلب پر گزشتہ رات درجنوں فضائی حملے کیے گئے اور یہ کہ اُنیس ستمبر  کو امریکی اور روسی ثالثی میں عمل میں آنے والے فائر بندی معاہدے کی ناکامی کے بعدسے اب تک مشرقی حلب میں کم از کم 358 شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ آبزرویٹری کے مطابق صرف اسی ہفتے شامی فوج نے، جسے روسی جنگی طیاوں کی بھی مدد حاصل تھی، مشرقی حلب میں 150 سے زائد افراد کو ہلاک کر دیا۔

USA Treffen Syrien-Unterstützergruppe
ہفتہ پندرہ اکتوبر کو امریکا اور روس شام میں قیام امن کے لیے ایک اور سفارتی کوشش شروع کرنے والے ہیںتصویر: picture-alliance/AP Photo/J. DeCrow

حلب، جو کسی دور میں شام کا سب سے بڑا شہر تھا، اب کھنڈر بن چکا ہے۔ وہاں بڑے پیمانے پر انسانی ہلاکتوں پر عالمی برادری سراپا احتجاج ہے اور اسی پس منظر میں ہفتہ پندرہ اکتوبر کو  امریکا اور روس شام میں قیام امن کے لیے ایک اور سفارتی کوشش شروع کرنے والے ہیں۔

شامی تنازعہ ایک پراکسی جنگ ہے: بشار الاسد

شامی صدر اسد کو روسی فوج، ایران کی پاسداران کونسل اور عرب ملکوں کی مختلف شیعہ ملیشیاؤں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ اُن کے خلاف برسرِ پیکار بڑی حد تک سنی العقیدہ باغیوں کو ترکی، امریکا اور خلیجی عرب ملکوں کا تعاون حاصل ہے۔ اسد نے ایک تازہ انٹرویو میں کہا کہ امریکا نے سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد بھی سرد جنگ نہیں روکی ہے اور یہ کہ شامی تنازعہ بڑی طاقتوں کے درمیان ایک ’پراکسی وار‘ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔