1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام اور روس کی بڑھتی ہوئی ’دوستی‘

کشور مصطفیٰ5 جنوری 2016

روس اور شام کے دوستانہ تعلقات گرچہ صدیوں پُرانے ہیں تاہم 30 ستمبر 2015 ء میں ماسکو کی طرف سے شام میں جہادیوں کے خلاف فضائی حملے شروع ہونے کے بعد سے روس کا شام میں اثرورسوخ تیزی سے بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1HY7p
تصویر: dapd

شام کے ایک ساحلی علاقے میں قائم مشروبات کی ایک دکان میں اہاب شیلف پر سجی بوتلوں کو ترتیب سے سجا رہا ہے۔ یہ اس کے والد کی دکان ہے۔ الکوحل کی ان بوتلوں میں وُوڈکا میں شام کے قومی مشروب عرق کی ملاوٹ سے تیار کردہ شراب ہے۔ اہاب اپنے نئے گاہکوں کو خوش کرنے کی امید میں ان مشروبات کی فروخت پر توجہ مرکوز کر رہا ہے۔ اس کے نئے گاہک اب روسی فوجی بھی ہیں، جن کا فوجی اڈہ اس علاقے میں قائم ہے، ’’ماضی میں وہسکی اور عرق کی مانگ زیادہ تھی تاہم روسیوں کی شام آمد سے اس رجحان میں تبدیلی آئی ہے۔ اب زیادہ مانگ وُوڈکا کی ہے۔‘‘

یہ مہنا ہے، جو اہاب کے شامی صوبے الاذقیہ میں ’کراؤن‘ نامی اسٹور کو چلا رہا ہے۔ 32 سالہ اہاب مسکراتے ہوئے مزید کہتا ہے، ’’میں ان بوتلوں کو اب شیلف پر سامنے کی طرف رکھ رہا ہوں تاکہ یہ گاہکوں کو نمایاں نظر آئیں۔‘‘

اہاب کے اسٹور کی طرح الاذقیہ کی متعدد دکانیں اور ریستوران روسی فوجیوں کے لیے پُرکشش اشیاء نمائش کے لیے سجائے ہوئے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ روسی فوجی ان کے گاہک بنیں۔ ان روسی فوجیوں نے ستمبر 2015 ء میں شام میں عسکری مداخلت کرتے ہوئے شامی صدر بشار الاسد کا ساتھ دینا شروع کر دیا تھا۔

Flaschen Bacardi und Wodka
روسیوں کے لیے شام میں اُن کا من پسند مشروب دستیابتصویر: Getty Images

روس ہی وہ ملک ہے جو ماضی میں بھی شام کا بھرپور ساتھ دیتا رہا ہے اور 2011 ء سے بشار الاسد کے خلاف شروع ہونے والی بغاوت اور عالمی برادری کی طرف سے دمشق حکومت پر بھرپور تنقید کے دور میں بھی شام کی بھرپور سیاسی اور فوجی حمایت جاری رکھے ہوئے تھا۔ روسی ذرائع کے مطابق اس وقت شام میں روس کے کئی ہزار فوجی اور جنگی طیارے تعینات ہیں۔

الاذقیہ کے صوبائی دارالحکومت سے جنوب کی طرف شامی صدر بشار الاسد کے آبائی علاقے کے قلب میں واقع روس کا Hmeimim فوجی ایئرپورٹ ہے، جہاں روسی فوجی اور روسی طیارے تعینات ہیں۔

روسی فوجی اشیائے خورد و نوش اور تفریحی مقاصد کے لیے شہر کا رُخ کرتے ہیں اور اس طرح الاذقیہ کے تاجروں کے لیے نئے کسٹمرز اور اُن کے مختلف مطالبات بزنس کے نئے مواقع فراہم کر رہے ہیں۔

اہاب نے اپنے والد سے چند روسی الفاظ سیکھنا شروع کردیے ہیں اور بقول اُس کے ’نئے دوستوں‘ کے ساتھ بات چیت کرنے میں اب اُسے سہولت ہو گئی ہے۔

Russischer Cruiser Moskva vor syrischer Küste
شام اور روس کے تعلقات محض عسکری نہیں ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/Russian Defence Ministry

اہاب کہتا ہے، ’’روسیوں کی موجودگی ہماری اقتصادیات پر مثبت اثرات مُرتب کر رہی ہے۔ ان کی وجہ سے ہماری فروخت میں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ روسی قیمتوں کے بارے میں بحث نہیں کرتے نہ ہی موُل تول نہیں کرتے۔‘‘

بہت سے شامی فوجی افسران روس میں تربیت حاصل کر چُکے ہیں۔ شام میں نہ تو روسی زبان بولنے والوں کی کمی ہے اور نہ ہی روسیوں کے ساتھ شادی کرنے والوں کی۔