1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی مہاجرین کی واپسی کا مطالبہ سنگ دلی ہے، گرین پارٹی

شمشیر حیدر
4 نومبر 2017

مہاجرین مخالف عوامیت پسند جماعت اے ایف ڈی نے وفاقی جرمن پارلیمان میں شامی مہاجرین کی وطن واپسی کے لیے قرارداد جمع کرائی ہے۔ حالیہ انتخابات میں اے ایف ڈی پہلی مرتبہ ملکی پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھی۔

https://p.dw.com/p/2n25Z
Berlin Konstituierung 19. Deutscher Bundestag
تصویر: DW/Nikita Jolkver

آلٹرنیٹیو فار ڈوئچ لینڈ یا اے ایف ڈی موجودہ جرمن پارلیمان میں تیسری بڑی سیاسی پارٹی بن کر بھی سامنے آئی ہے۔ دائیں بازو کی اس مہاجرین اور مسلم مخالف عوامیت پسند جماعت نے ملکی پارلیمان میں شامی مہاجرین کی وطن واپسی سے متعلق ایک تجویز بحث کے لیے پیش کی ہے۔

’مہاجرت مخالف ہی مہاجرین کی اسمگلنگ میں ملوث‘

جرمنی میں پناہ کی درخواستوں پر فیصلوں میں کتنا وقت لگتا ہے؟

اے ایف ڈی کی اس قرارداد میں پارلیمان کے ارکان سے کہا گیا ہے کہ شام میں جاری جنگ ختم ہونے کے قریب ہے اور اب شام کے صرف دس فیصد علاقے میں جنگ جاری ہے۔ اے ایف ڈی نے اپنی اس دستاویز میں شامی مہاجرین کو جرمنی سے واپس شام بھیجنے کی درخواست کرتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ شام کے زیادہ تر علاقوں میں قیام امن کے بعد تعمیر نو کے کام بھی شروع ہو چکے ہیں اور ملکی صدر بشار الاسد ایک سے زائد مرتبہ اپنے عوام سے وطن واپسی کی درخواست کر چکے ہیں۔

جرمن پارلیمان میں گرین پارٹی نے اے ایف ڈی کی اس تجویز پر سخت ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’سنگ دلی اور کم علمی پر مبنی مطالبہ‘ قرار دیا ہے۔ وفاقی جرمن پارلیمان میں گرین پارٹی کی مہاجرین کے امور سے متعلق ترجمان لوئیزے آمٹسبرگ کا کہنا تھا، ’’یہ تجویز نہ صرف سنگ دلی، بلکہ ناواقفیت اور کم علمی کی عکاسی بھی کرتی ہے۔‘‘

گرین پارٹی کے مطابق اے ایف ڈی کی اس تجویز کی مخالفت کی جائے گی۔ ایک مقامی اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے آمٹسبرگ کا کہنا تھا کہ تیرہ ملین سے زائد شامی مہاجرین انسانی بنیادوں پر فراہم کی جانے والی امداد پر انحصار کر رہے ہیں اور ان میں سے بھی زیادہ تر امداد سے محروم ہیں۔

جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت سی ڈی یو گرین پارٹی اور ایف ڈی پی کے ساتھ مخلوط حکومت کے قیام کے لیے مذاکرات بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ گرین پارٹی نے اے ایف ڈی کی اس تجویز پر یہ بھی کہا ہے کہ اس جماعت نے برلن حکومت کو شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کے ساتھ رابطے کی تجویز بھی دی ہے اور یوں انہوں نے اسد حکومت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو نظر انداز کیا ہے۔

’پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کو جیب خرچ نہیں ملنا چاہیے‘

جرمنی: موبائل فون کے ذریعے مہاجرین کی جاسوسی کا قانون تنقید کی زد میں