شامی مہاجرین کو بس میں سوار کر کے میرکل کے دفتر بھیج دیا
14 جنوری 2016احتجاج کا انوکھا طریقہ اختیار کرنے والے ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریٹر پیٹر ڈرائر کا کہنا ہے کہ گیارہ لاکھ تارکین وطن کی جرمنی آمد کی وجہ سے ان کا دیہی علاقہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔
مہاجرین سے بھری بس آج صبح دس بجے جرمن وفاقی ریاست باویریا کے لانڈزہوُٹ نامی قصبے سے برلن کی جانب روانہ ہوئی۔ بس میں سوار اکیس سے پینتالیس برس تک کی عمر کے شامی مہاجرین 570 کلومیٹر کا سفر کر کے آج شام برلن پہنچے گی۔
ایک جرمن ٹی وی چینل سے بات چیت کرتے ہوئے ڈرائر نے بتایا کہ ان کے علاقے کے عوام کا کہنا ہے کہ اب تارکین وطن کی ’زیادہ سے زیادہ تعداد کی حد‘ مقرر کرنے کا وقت آ پہنچا ہے۔
لانڈزہوُٹ کے ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریٹر کا مزید کہنا تھا، ’’ہم ان (تارکین وطن) کے معاشرتی انضمام میں مدد کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اگر اس برس بھی مزید دس لاکھ تارکین وطن جرمنی آ گئے تو پھر یہ ناممکن ہو جائے گا۔‘‘
ڈرائر کے مطابق، ’’وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اٹھ کھڑے ہوں تا کہ سیاست دان اپنا رویہ تبدیل کریں۔‘‘ ڈرائر نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے اپنے منصوبے کے بارے میں گزشتہ برس اکتوبر کے مہینے میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو ٹیلی فون پر خبردار کیا تھا۔
دوسری جانب پناہ گزینوں کی مدد کرنے والی سماجی تنظیم Pro Asyl سے وابستہ بُرک ہارڈ کا کہنا ہے، ’’یہ مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کے لیے تارکین وطن کی حالت زار کا ناجائز فائدہ اٹھا کر شعبدہ بازی کی جا رہی ہے۔‘‘
لیکن ڈرائر کا کہنا ہے کہ ان کے ضلع نے پناہ گزینوں کے لیے چھیاسٹھ مراکز کا بندوبست کر رکھا ہے اور بس میں سوار تمام مہاجرین نے رضاکارانہ طور پر اس سفر پر نکلنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ مذکورہ مہاجرین برلن میں ہی قیام کریں گے یا واپس باویریا آ جائیں گے۔
ضلعی انتظامیہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ ان شامی باشندوں کی پناہ کی درخواستیں منظور کی جا چکی ہیں اور وہ قانونی طور پر جرمنی میں کہیں بھی رہائش اختیار کر سکتے ہیں۔
علاقائی پبلک براڈ کاسٹر ٹی وی چینل سے بات چیت کرتے ہوئے ڈرائر نے یہ بھی کہا کہ انہیں تارکین وطن کی مسلسل آمد ختم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی جب کہ انہیں جرمنی میں باوقار رہائش فراہم کرنے کے لیے وسائل ختم ہوتے جا رہے ہیں۔
انگیلا میرکل نے شامی مہاجرین کے لیے کھلے دروازے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ جرمن عوام کی اکثریت نے بھی ان کے اقدام کو سراہا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ میرکل کی مخالفت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
سال نو کے موقع پر کولون میں ہونے والے جنسی حملوں کے بعد مہاجرین مخالف جذبات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ تاہم ڈرائر کا کہنا ہے کہ ان حملوں سے قبل بھی جرمن عوام کا ریاست اور اداروں پر اعتماد اٹھتا جا رہا تھا۔