1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی مہاجرین ایک دوسرے کی مدد کس طرح کر رہے ہیں؟

عاطف توقیر21 اگست 2016

برطانوی معاشرے میں بہتر انضمام کے لیے شامی مہاجرین ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں۔ ان مہاجرین خصوصاﹰ شامی بچوں کے لیے وہاں اہم اور بڑا مسئلہ انگریزی زبان سے ناآشنائی کا ہوتا ہے اور مہاجرین اس میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1JmTi
Isle of Bute Insel Schottland Syrische Flüchtlinge
تصویر: Getty Images/Ch. Furlong

لندن میں ایک چرچ کی عمارت تیز بارش میں بھیگ رہی ہے۔ ایسے میں فردوس بہبو ایک عارضی کمرہء تدریس میں گرم چائے ایک پیالی میں انڈیلتی ہیں۔ اس جماعت میں قریب 25 شامی مہاجر بچے موجود ہیں، جنہیں یہ استانی یہ سکھا رہی ہیں کہ انگریزی میں کسی جگہ کا پتا کیسے پوچھا جاتا ہے، یا کسی علاقے تک پہنچنے کے لیے سمت کیسے جانی جاتی ہے اور کسی دکان سے کچھ خریدا کس طرح جاتا ہے۔ اسی جماعت میں ان بچوں کو برطانوی اقدار سے بھی روشناس کرایا جاتا ہے تاکہ یہ بچے اپنے دوست بنا سکیں اور ان بچوں پر معاشرے میں بہتر انضمام کے راستے ہم وار ہو جائیں۔

یہ جماعت سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر بنائی گئی اس کمیونٹی کا حصہ ہے، جس کا نام ’’اھلاﹰ و سھلاﹰ‘‘ ہے یعنی خوش آمدید۔ برطانیہ پہنچنے والے مہاجرین کی جانب سے اپنے دیگر ساتھیوں کے لیے اٹھانے جانے والے اسی طرز کے بہت سے دیگر اقدامات میں سے یہ بھی ایک ہے، جن کے تحت شامی خانہ جنگی سے فرار ہو کر یورپ اور خصوصاﹰ برطانیہ پہنچنے والے مہاجرین ایک دوسرے کی اعانت کر رہے ہیں۔

بہبو کا کہنا ہے، ’’میں خود بھی ایک مہاجر ہوں اور میں یہ محسوس کر سکتی ہوں کہ اپنے گھر سے دوری اور واپس نہ لوٹ پانے کا خیال کیسا ہوتا ہے۔‘‘

Isle of Bute Insel Schottland Syrische Flüchtlinge
شامی مہاجرین کی ایک بہت قلیل آباد برطانیہ نے اپنے ہاں قبول کی ہےتصویر: Getty Images/Ch. Furlong

بہبو، جو اب اپنی عمر کی تیسری دہائی میں ہیں، انگریزی پڑھاتی ہیں۔ وہ برطانیہ میں ماسٹرز ڈگری کی تعلیم حاصل کر رہی تھیں، جب شام میں خانہ جنگی شروع ہو گئی اور ان کے لیے وطن واپسی کے راستے مسدود ہو گئے۔ اب وہ ان مہاجروں کو تعلیم اس لیے دے رہی ہیں تاکہ اپنے شامی ہم وطنوں کی مدد کر سکیں۔

برطانیہ نے 20 ہزار شامی باشندوں کو اپنے ہاں بسانے کا اعلان کیا تھا، تاہم وہ اب بھی اپنے اس وعدے کو ایفا کرنے کی تگ و دو میں ہے۔ حکومت اس اعتبار سے مختلف خیراتی اداروں اور کمیونٹی گروپس کی امداد کی متمنی ہے، تاکہ ملک میں نئے آنے والوں کی بہتر آبادکاری کا عمل انجام پا سکے۔

برطانوی دفترِ داخلہ نے پہلی بار ایک مہم کا آغاز کیا ہے، جس کے تحت مقامی تنظیموں کو مہاجرین کی مالی اعانت کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اسی طرح اس دفتر کی ویب سائٹ پر مہاجرین کو مختلف رضاکاروں اور مہاجرین کی امداد کرنے والے اداروں کی تفصیلات بھی بہم پہنچائی جاتی ہیں۔

برطانیہ کی جانب سے ابتدا میں اس بین الاقوامی دباؤ کے خلاف خاصی مزاحمت کی گئی، جس میں لندن حکومت سے کہا گیا تھا کہ وہ زیادہ بڑی تعداد میں شامی باشندوں کو اپنے ہاں بسائے، تاہم سن 2011 سے اب تک نو ہزار سے زائد شامی شہریوں نے برطانیہ میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائی ہیں۔ یورپ میں سیاسی پناہ کی درخواستیں دینے والے شامی باشندوں کی مجموعی تعداد گیارہ لاکھ سے زائد ہے اور برطانیہ میں ان کی تعداد انتہائی کم ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کا کہنا ہے کہ یورپ بھر میں تعداد کے اعتبار سے سب سے زیادہ شامی مہاجرین کو جرمنی نے اپنے ہاں پناہ دی ہے۔