سوڈانی مہاجرین کے لیے راشن نصف کر دیا گیا
19 اگست 2016یہ بات کمپالا حکومت کی طرف سے آج جمعہ 19 اگست کو بتائی گئی ہے۔ وزیر برائے ’ریلیف اینڈ ڈیزاسٹر پری پیئرڈنیس‘ مُوسیٰ ایکویرو نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا کہ اقوام متحدہ کا ورلڈ فُوڈ پروگرام جنوبی سوڈان کے مہاجرین کے لیے فنڈز میں بیس ملین ڈالرز کی کمی کا شکار ہے۔
قبل ازیں کمپالا حکومت اور اقوام متحدہ کی مہاجرین سے متعلق ایجسنی UNHCR کی طرف سے بتایا گیا تھا کہ جولائی 2015ء سے پہلے پہنچنے والے تقریباً دو لاکھ مہاجرین کا راشن اور مالی امداد آدھی کر دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ایکویرو کے مطابق راشن اور مالی مدد میں کمی کے اس فیصلے پر عملدرآمد کا آغاز فوری طور پر کیا جا رہا ہے۔
رواں برس جولائی میں جنوبی سوڈانی دارالحکومت جوبا میں پھوٹ پڑنے والی جھڑپوں کے بعد ستّر ہزار سے زیادہ جنوبی سوڈانی شہریوں نے یوگنڈا میں جا کر پناہ لی تھی۔ ایکویرو کے مطابق ان مہاجرین کو ابھی پورا راشن دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بزرگ مہاجرین، شدید بیمار، یتیم اور خوراک کی کمی کے شکار مہاجرین کو بھی خوراک کی پوری مقدار دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
جوبا میں جولائی کے آغاز میں چار روز تک لڑائی ہوئی تھی مگر وہاں سے مہاجرین کی آمد کا سلسلہ اُس کے بعد بھی جاری رہا تھا۔ ان مہاجرین نے ملک بھر میں مسلح گروپوں کی طرف سے حملوں، جنسی زیادتیوں اور نوجوان مردوں کو لڑائی کے لیے زبردستی بھرتی کرنے کی اطلاعات دی تھیں۔
اقوام متحدہ کی بچوں کی بہبود کے ادارے UNICEF کی طرف سے آج جمعہ 19 اگست کو بتایا گیا کہ جنوبی سوڈان میں رواں برس اب تک 650 بچوں کو بطور فوجی بھرتی کیا گیا ہے۔ اس ایجنسی کی طرف سے خبردار کیا گیا ہے کہ اگر تشدد کا نیا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو مزید بچوں کو لڑائی کے لیے بھرتی کیے جانے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
جنوبی سوڈان میں صدر سِلواکیر اور ان کے سابق نائب رِیک مچار کے حامیوں کے دوران فوجی تنازعہ دسمبر 2013ء میں شروع ہوا تھا۔ یونیسف کے اندازوں کے مطابق اُس وقت سے اب تک زبردستی بھرتی کیے جانے والے بچوں کی تعداد 16 ہزار سے زائد ہے۔ ان دونوں افراد نے رواں برس اپریل میں ایک اتحادی حکومت قائم کی تھی جس میں رِیک مچار کو ایک بار پھر نائب صدر بنایا گیا تھا۔ تاہم جوبا میں لڑائی اور پھر سلواکیر کی طرف سے رِیک مچار کو ان کے عہدے سے ایک بار پھر برطرف کر دیے جانے سے امن کی امیدیں دم توڑ گئی تھیں۔