1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سوچی کا راکھین کے بحران زدہ حصے کا پہلا دورہ

2 نومبر 2017

میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی نے حالیہ روہنگیا بحران کے بعد شورش زدہ صوبے راکھین کا پہلی مرتبہ دورہ کیا ہے۔ سوچی پر اس وقت شدید عالمی دباؤ ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کے خاتمے کی کوشش کریں۔

https://p.dw.com/p/2msnw
Myanmar Aung San Suu Kyi Besuch in Rakhine
تصویر: Reuters

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے دو نومبر بروز جمعرات بتایا کہ میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی نے شمالی صوبے راکھین کا دورہ کیا اور وہاں سکیورٹی کی صورتحال کا جائزہ لیا۔ ان کی حکومت کی کوشش ہے کہ راکھین میں قیام امن کی کاوشوں میں تیزی لائے جائے، تاکہ وہاں سے اپنی جانیں بچا کر فرار ہونے والی مقامی روہنگیا برادری کے لاکھوں افراد کی دوبارہ آباد کاری کا عمل شروع ہو سکے۔

روہنگیا بحران: اقوام متحدہ اور میانمار میں کشیدگی بڑھتی ہوئی

دہشت زدہ روہنگیا بچوں کے چہروں پر مسخرے مسکراہٹ لاتے ہوئے

روہنگیا مہاجرین کے کیمپوں میں جسم فروشی کی خفیہ انڈسٹری

بنگلہ دیش پہنچنے والے روہنگیا مہاجرین کے مصائب

اس سال پچیس اگست سے راکھین میں شروع ہونے والے تشدد کی وجہ سے چھ لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان جان بچاتے ہوئے اس صوبے سے فرار ہو کر بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں۔ اقوام متحدہ نے میانمار میں اس اقلیتی کمیونٹی کے خلاف جاری کارروائیوں کو ’نسلی تطہیر‘ قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ روہنگیا برادری کے خلاف کریک ڈاؤن ختم کیا جائے۔

بنگلہ دیش میں پناہ گزین روہنگیا مسلمانوں کا کہنا ہے کہ میانمار کی سکیورٹی فورسز بھی اس ظلم و تشدد میں شامل رہیں جبکہ ملکی فوجیوں نے ان کے گھروں کو آگ لگائی، مردوں کو ہلاک کیا، عورتوں کو ریپ کیا اور بچوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا۔

میانمار میں سن دو ہزار پندرہ کے الیکشن میں سوچی کی پارٹی نے واضح اکثریت حاصل کی تھی۔ تب انتخابی مہم کے دوران سوچی نے راکھین کا دورہ کیا تھا۔ تاہم الیکشن میں کامیابی اور وہاں مقامی بدھ آبادی اور روہنگیا مسلمانوں کے مابین شروع ہونے والے تنازعات کے بعد سے سوچی نے آج پہلی مرتبہ اس ریاست کے بحران زدہ حصے کا دورہ کیا ہے۔

میانمار میں اس حالیہ بحران کی وجہ سے نوبل امن انعام یافتہ سوچی کو عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بالخصوص اس بحران پر ان کی خاموشی پر کئی مبصرین کہہ چکے ہیں کہ ان سے نوبل امن انعام واپس لے لینا چاہیے۔

اس تناظر میں نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے بھی انہیں تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ دوسری طرف کچھ ناقدین کا کہنا ہے اگر سوچی روہنگیا مسلمانوں کے حق میں کوئی بیان دیتی ہیں، تو انہیں اپنے ملک میں فوج اور دیگر قوم پرست سیاستدانوں کی طرف سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جائے گا۔

اس صورتحال میں میانمار کی حکومت نے کہا ہے کہ وہ راکھین میں امن کی صورتحال بہتر بنانے کی کوشش میں ہے اور جلد ہی بنگلہ  دیش فرار ہونے والے روہنگیا مسلمانوں کو واپس بلایا جائے گا۔

یکم نومبر بروز بدھ ایک حکومتی بیان میں کہا گیا تھا کہ میانمار تیار ہے کہ بنگلہ دیش مہاجرت کرنے والے روہنگیا مسلمان واپس آ جائیں۔ اس بیان میں ڈھاکا حکومت پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ اس تناظر میں سستی دکھا رہی ہے کیونکہ وہ امدادی رقوم کی فراہمی سے قبل یہ کام نہیں کرنا چاہتی۔