’سوچی سے امن انعام واپس لیا جائے‘
7 ستمبر 2017نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ناروے کی نوبل کمیٹی نے واضح کر دیا ہے کہ وہ کسی بھی امن انعام موصول کرنے والے شخص سے انعام واپس نہیں لیتے کیوں کہ یہ ایوارڈ اس کام کی بنیاد پر دیاجاتا ہے جو کہ انعام حاصل کرنےکی بنیاد بنا ہو۔
ویب سائٹ ’چینج ڈاٹ او آر جی‘ کی اس پیٹیشن پر اب تک تین لاکھ پینسٹھ ہزار سے زائد افراد دستخط کر چکے ہیں جو کہ ظاہر کرتا ہے کہ عالمی سطح پر میانمار کی راکھین ریاست میں روہنگیا آبادی کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر گہری تشویش پائی جاتی ہے۔ پیٹیشن میں لکھا گیا ہے، ’’میانمار کی رہنما نے اپنے ملک میں انسانیت کے خلاف ہونے والے مظالم کے حوالے سے کچھ بھی نہیں کیا۔‘‘
سوچی کو سن 1991 میں امن انعام دیا گیا تھا جب وہ ملکی فوج کی جانب سے نظر بند تھیں۔ سن 2010 میں سوچی کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی گئی تھی۔ اس کے بعد سے وہ اپنی سیاسی جماعت کی سربراہی کر رہی ہیں۔ سوچی کی سیاسی جماعت نے میانمار کے حالیہ انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ لیکن سوچی کی حکومت کو میانمار کی فوج کی جانب سے روہنگیا آبادی کے ساتھ کی جانے والی مبینہ زیادتی پر عالمی سطح پر تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اقوام متحد کے مطابق اب تک ایک لاکھ چونسٹھ ہزار روہنگیا میانمار کی راکھین ریاست سے بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں۔ اس ہفتے سوچی نے الزام عائد کیا کہ روہنگیا کے حوالے سے بے بنیاد معلومات پھیلائی جا رہی ہیں جو کہ دہشت گردوں کے عزائم کو تقویت دی گی۔ اوسلو میں نوبل انسٹیٹیوٹ کے سربراہ اولاو نیجولس ٹاڈ بت نے کہا ہے کہ کسی نوبل امن انعام حاصل کرنے والے سے اس کا امن انعام واپس لیے جانا ناممکن ہے۔