1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’سونے کے سکے لاؤ اور شادی رچا لو‘

عابد حسین
19 مارچ 2017

ایران میں شادی کے بندھن کے لیے ایرانی مرد کو بطور حق مہر سونے کے سکے دینے ہوتے ہیں۔ ان کا تعین خاندانوں کی رضامندی سے طے کیا جاتا ہے۔ طلاق کی صورت میں ان سونے کے سکوں کی عدم ادائیگی پر عدالت مرد کو جیل بھی بھیج سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/2ZUnu
Symbolbild Gleichberechtigung Iran Frauen
تصویر: picture-alliance/dpa

ایران کی یہ قدیمی رسم ہے کہ شادی کے لیے لڑکے اور لڑکی کے خاندان کے افراد حتمی حق مہر کا تعین کرتے ہیں۔ ایرانی رواج میں لڑکی کی جانب سے ممکنہ بیوی کو سونے کے سکے دینے کا رواج ہے۔ ایک سونے کے سکے کی ایرانی ریال میں قیمت دس لاکھ یا تین سو امریکی ڈالر بنتی ہے۔

عام تاثر یہ ہے کہ ایران میں ایک مرد اگر پچاس برس مسلسل ملازمت کرے تو وہ آٹھ سو سونے کے سکے خریدنے کے قابل ہوتا ہے۔ آٹھ سو سونے کے سکے عام طور پر رشتہ طے کرنے کے آغاز پر بول دیے جاتے ہیں اور پھر اگلی ملاقاتوں میں افہام و تفہیم سے اس حجم میں کمی بیشی کی جاتی ہے۔

یہ تاثر بھی عام ہے کہ مہر کی صورت میں دیے جانے والے سونے کے سکے ایران کے مردانہ غلبے والے معاشرے میں خاتون کے لیے ایک بڑی نعمت تصور کیے جاتے ہیں۔ طلاق کی صورت میں یہی سکے اُس کے محفوظ مستقبل کی ضمانت بنتے ہیں اور بچوں کی پرورش کے اخراجات برادشت کرسکتی ہے۔ طلاق کی صورت میں عموماً عدالت 120 سونے کے سکوں کی ادائیگی کا حکم صادر کرتی ہے۔ اس میں عدالت مرد کو سہولت دیتی ہے کہ وہ ایک سکہ ماہانہ بنیاد پر بھی ادا کر سکتا ہے۔

ایران میں شادی شدہ جوڑوں میں طلاق کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں طلاق کی شرح میں پندرہ فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اسی باعث سونے کے سکے ادا نہ کرنے والے مردوں کی جیلوں میں تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔

Iran Kopfbedeckung in der Mode
ایران میں طلاق یافتہ کئی خواتین کی عمریں بیس اور تیس برس کے درمیان ہیںتصویر: picture-alliance/Bildagentur-online/AGF-Foto

اس وقت مختلف ایرانی جیلوں میں تقریباً تیئیس سو ایرانی مرد طلاق کے بعد حق مہر ادا نہ کرنے پر مقید ہیں۔ سن 2016 میں سترہ سو ایسے مردوں کو رہائی دی گئی، جو حق مہر میں سونے کے سکے دینے میں ناکامی کے بعد جیل بھیج دیے گئے تھے۔ ان افراد کی رہائی کی وجہ خیراتی اور عطیہ دینے والے اداروں کی جانب سے ملنے والی رقوم سے حق مہر ادا کیا گیا تھا۔

طلاق یافتہ کئی خواتین کی عمریں بیس اور تیس برس کے درمیان ہیں۔ ان میں سے کئی کا کہنا ہے کہ شادی کے بعد بھی خواتین خوفزدہ رہتی ہیں کہ انہیں شوہر کے گھر میں مکمل حقوق حاصل نہیں ہوں گے اور طلاق کی صورت میں یہی حق مہر کی صورت میں ملنے والے سونے کے سکے اُن کے مستقبل اور بچوں کی کفالت کا سہارا ہوتے ہیں۔ کئی لڑکیاں حق مہر سے اپنی تعلیم کے سلسلے کو دوبارہ شروع کر دیتی ہیں۔

ایرانی عدالتی نظام کے ایک اہلکار اور مذہبی عالم ہادی صادقی کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ خاندانوں میں مقابلے کی رسم چل نکلی ہے اور وہ نوجوان لڑکیوں کی شادی میں زیادہ حق مہر کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ صادقی کے مطابق خاندانوں کو زیادہ حقِ مہر کا مطالبہ تسلیم کرنے کے بجائے نئے جوڑوں کے درمیان افہام و تفہیم اور برداشت کے رویوں کو فروغ دینا چاہیے تا کہ قبل از اسلام کی رسم کی حوصلہ شکنی شادی کے تسلسل سے ہو۔