1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سوات میں نظام عدل اور بین الاقوامی خدشات

گوہرنذیر گیلانی10 مارچ 2009

جوخوبصورت وادی کبھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز تھی، آج کل وہ انٹرنیشنل میڈیا کا فوکس ہے۔

https://p.dw.com/p/H9LK
مولانا فضل اللہ کا ایک مسلح حامیتصویر: AP

سلامتی کے اعتبار سے جنوبی ایشیاء کا پورا خطّہ امریکہ اور یورپ کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ شدت پسند پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پناہ لے رہے ہیں اورانہی علاقوں میں مزید شدت پسندوں کو ہتھیاروں کی تربیت بھی دی جارہی ہے۔ مغربی ممالک کو یہ خدشہ بھی ہے کہ اگر سوات جیسے علاقوں میں پاکستان کی صوبائی حکومت شدت پسندوں سے نمٹنے کی بجائے اُن کے ساتھ مذاکرات کرتی ہے تو اس سے عسکریت پسندوں کو دوبارہ منظّم ہونے میں مدد ملتی ہے۔

پاکستانی شہرکراچی میں مقیم معروف دفاعی تجزیہ نگاراکرام سہگل اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ماضی میں پاکستان کو مولانا فضل اللہ جیسے شدت پسندوں کے ساتھ امن معاہدوں کے تلخ تجربے ہوئے ہیں تاہم اعتدال پسندوں کے ساتھ مذاکرات کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

’’مولانا فضل اللہ کو پہلے بھی ہم نے آزمالیا ہے اوراس آزمائش میں وہ صحیح ثابت نہیں ہوئے۔ وہ اس ٹائم کو استعمال کرتے ہیں دوبارہ منظّم ہونے کے لئے لیکن مولانا صوفی محمد کی جو ساکھ ہے، وہ کچھ اورہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ سوات امن معاہدہ کہاں تک جاتا ہے، بہرحال اس سے میری کچھ زیادہ توقعات وابستہ نہیں ہیں۔‘‘

مغربی ملکوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سرگرم شدت پسند نہ صرف پاکستان اور ہمسایہ ملک افغانستان کی سیکیورٹی کے لئے خطرہ ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ اور پوری دنیا کی سلامتی کے لئے بھی۔ امریکی خفیہ اداروں کے مطابق القاعدہ، طالبان اور دیگرعسکری تنظیموں کا پاکستان کے قبائلی علاقوں اورافغان سرحد سے ملحقہ علاقوں میں بول بالا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں میں شدت پسندوں کے مبینہ ٹھکانوں کو امریکی میزائل اورڈرون حملوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

مقامی سطح پرسوات امن معاہدے کی ستائش کی جارہی ہے۔ امن معاہدے کے بعد جب صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ امیرحیدرخان ہوتی نے سوات کا دورہ کیا تو اُنہوں نے فریقین پر زوردیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ سب مل کر قیام امن کے لئے اپنا اپنا کردارادا کریں۔

’’تمام لوگوں سے میری یہ اپیل ہوگی کہ وہ امن بحالی کے لئے اب اپنا کردارادا کریں لہٰذا تمام قانون نافذ کرنے والے ادارے صرف اسی صورت میں کارروائی کریں گے اگران پرحملہ کیا جاتا ہے۔‘‘

لیکن ایسے بیانات اورتوقعات کے باوجود سوات سے نقل مکانی کرنے والے ہزاروں افراد اپنے گھروں کی طرف واپس لوٹنے سے کترارہے ہیں۔