1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سنکیانگ فسادات کے ذمہ داروں کو سخت سزا: چینی صدر

9 جولائی 2009

چینی صدر ہو جن تاؤ نے ملک کے مغربی صوبے سنکیانگ میں بدامنی کے ذمہ دار افراد کو سخت ترین سزائیں دلوانے کا اعلان کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/IkUe
چینی صدر ہوجن تاؤتصویر: AP

سنکیانگ کے دارالحکومت ارمچی میں ہزاروں سیکیورٹی اہلکار امن عامہ کو یقینی بنانے کے لئے ابھی تک وہاں متعین ہیں۔

اٹلی میں جی ایٹ کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے بغیر ہی، واپس چین لوٹ جانے والے صدر ہوجن تاؤ نے، بیجنگ میں آج جمعرات کے لئے کمیونسٹ پارٹی کی پولٹ بیورو کی، مستقل کمیٹی کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کر لیا تھا۔ اس اجلاس کے بعد ہوجن تاؤ نے نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سنکیانگ میں امن کی بحالی چینی حکومت کی اولین ترجیح اور سب سے ضروری کام ہے۔

ہو جن تاؤ نے سنکیانگ میں حالیہ مظاہروں کے ذمہ دار افراد کو ’’فسادی‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسے عناصر کو قانون کے مطابق سخت ترین سزا دی جائے گی۔

ارمچی میں حالیہ خونریزی کی اصل وجوہات کیا رہیں؟ اس بارے میں جرمن دارالحکومت برلن میں فاؤنڈیشن فارسائنس اینڈ پولیٹکس کی سنکیانگ سے متعلقہ امور کی ایک ماہر، گُودرُون واکر کہتی ہیں : ’’مسئلہ یہ ہے کہ یہ نسلی کشیدگی ختم نہیں ہو رہی۔ کیونکہ یہ کشیدگی صرف نسلی ہی نہیں ہے بلکہ اس کا ایک مذہبی پہلو بھی ہے۔ یہ، کہ ایغور مسلمان ہیں۔ اور اس کا ایک رخ معاشی بھی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایغور اقلیت میں ہیں اور وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ مذہب کی وجہ سےنسلی اور معاشی امتیاز برتا جارہا ہے ۔‘‘

2.3 ملین کی آبادی والے شہر ارمچی میں، حکومتی بیانات کے مطابق، امن عامہ کی مکمل بحالی کے لئے نہ صرف زمینی سیکیورٹی دستے بڑی تعداد میں وہاں گشت کررہے ہیں بلکہ شہر کی فضا میں فوجی ہیلی کاپٹر بھی اپنی نگران پروازیں مسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ شہر میں کچھاؤ کے ماحول میں بہتری کے لئے سیکیورٹی دستوں کی گاڑیوں پر نسلی تعصب اور دہشت گردی کے خلاف بیانات والے بینرز بھی لہرائے جارہے ہیں۔

خبر رساں اداروں کے مطابق ارمچی میں اقلیتی نسل کی مسلمان آبادی سے تعلق رکھنے والے بہت سے ایغور باشندوں نے اتوار کو ہان نسل کے اپنے ہی ہم وطن مقامی افراد پر حملے شروع کردیئے تھے۔ ویک اینڈ پر ہونے والے ان نسلی فسادات میں 156 افراد ہلاک اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

اسی دوران یہ اطلاعات بھی ملی ہیں کہ چینی حکومت نے غیر ملکی میڈیا کو تو ارمچی میں فسادات کی رپورٹنگ سے منع نہیں کیا مگر داخلی سطح پر ابھی بھی سخت گیر موقف اپنایا جارہا ہے۔ اس کی ایک مثال انٹرنیٹ اور ٹیلی فون جیسی سہولتوں پر عائد سخت پابندیاں ہیں جو آج بھی برقرار ہیں۔

وسیع تر صحرائی علاقوں والے چینی صوبے سنکیانگ کی سرحدیں روس، تاجکستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت کے ساتھ ملتی ہیں اور یہ چینی علاقہ تیل اور قدرتی گیس کی پیداوار کے حوالے سے بھی نہایت اہم ہے۔

رپورٹ : میرا جمال

ادارت : مقبول ملک