سندھ میں سندھی زبان کا مستقبل، ایک نئی بحث
17 اپریل 2010عدالت عالیہ سندھ میں ایک شہری اقبال کاظمی نے درخواست دائر کی ہے کہ 1972ء میں سندھ اسمبلی نے سندھی زبان کو سرکاری اداروں اور تعلیمی اداروں میں رائج کرنے کو لازمی قرار دیا ہے ۔ مگر آج 38 برس بعد بھی سندھی زبان ایکٹ پر عملدرآمد نہیں ہو رہا ۔ اس درخواست کی سماعت سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے کرتے ہوئے سیکریٹری تعلیم اور چیف سیکریٹری سے اس قانون پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ دریافت کرتے ہوئے چارہفتوں بعد رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کا حکم جاری کیا ہے ۔
اقبال کاظمی نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 251 کے تحت صوبوں کو علاقائی زبان اختیار کرنے کا حق دیا جائے۔
1972ء میں جب پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چئیرمین ذوالفقارعلی بھٹوکی حکومت تھی تو اس وقت کے وزیر اعلی سندھ ممتاز بھٹو نے سندھی زبان کوسرکاری زبان کا درجہ دینے کا فیصلہ کیا تھا جس کے بعد کراچی میں اردو اور سندھی بولنے والوں کے درمیان بدترین لسانی فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ بھٹو نے صوبے میں بسنے والی دونوں اکائیوں کے رہنماﺅں سے مذاکرات کے بعد طے کیا تھا کہ اردوبدستور قومی زبان رہے گی لیکن سرکاری ، نجی اور تعلیمی اداروں میں سندھی زبان لازمی پڑھائی جائے گی اور صوبے کی سرکاری زبان سندھی ہو گی مگر بعد میں آنے والی حکومتوں نے اس پر عملدرآمد نہیں کیا۔
سینئیر صحافی تجزیہ کار ارشاد گلابانی کا کہنا ہے کہ سندھی اور اردو کے نفاذ سے دونوں زبانوں کو استحکام اور تحفظ ملے گا۔
کراچی یونیورسٹی شعبہ ء اردو کے چیئرمین پروفیسر سحر انصاری کا کہنا ہے کہ سرکاری طور پر صوبہ سندھ کو دو لسانی صوبہ مانا جاتا ہے۔ عدالت کو سندھی زبان کے عدم نفاذ کی وجہ ضرور دریافت کرنا چاہیے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت کو 18 ویں آئینی ترمیم اور صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرنے کے بعد اب چاروں صوبوں میں بسنے والی لسانی اکائیوں کی طرف سے علیحدہ صوبے کے قیام کے مطالبات سامنے آنے لگے ہیں یہی وجہ ہے کہ تمام قوم پرست جماعتیں ،لسانی بنیادوں پر علیحدہ صوبے کی تحریک کی حمایت کر رہی ہے۔
رپورٹ : رفعت سعید
ادارت : شادی خان سیف