1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

040711 Panzergeschäfte

5 جولائی 2011

سعودی عرب جرمن جنگی ٹینک خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ جرمن جریدے ڈیئر اشپیگل کے مطابق برلن حکومت نے سعودی عرب کو ان ٹینکوں کی فروخت کا اشارہ بھی دے دیا ہے۔ اس پر اپوزیشن کی طرف سے شدید تنقید کی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/11p6P
تصویر: KMW/dpa

ملکی اپوزیشن کی طرف سے اس دفاعی تجارتی سودے پر اس لیے سخت تنقید کی جا رہی ہے کہ وفاقی پارلیمان میں حزب اختلاف کی سبھی جماعتوں کے مطابق ایسا کوئی بھی معاہدہ جرمن برآمدات سے متعلق ضابطوں کی خلاف ورزی ہو گا۔

وفاقی جرمن حکومت نے ان رپورٹوں کی تردید نہیں کی بلکہ وہ خاموش ہے۔ یہ خاموشی اس سوال کا جواب ہے کہ آیا سعودی عرب کو جرمن جنگی ٹینکوں کی فروخت کی عملاﹰ اجازت دے دی گئی ہے۔ ڈیئر اشپیگل کے مطابق سعودی سکیورٹی فورسز کے لیے جرمنی اپنے ’لیپرڈ 2A7+‘ طرز کے 200 سے زائد انتہائی جدید ٹینک مہیا کرے گا۔ غیر مصدقہ رپورٹوں کے مطابق سعودی عرب ایسے 44 ٹینک خرید بھی چکا ہے۔ اس معاہدے کا مطلب ہے جرمن اسلحہ ساز فرم کراؤس مافائی ویگمان کے لیے اربوں کا کاروبار۔

NO FLASH Kampfpanzer Leopard 2A7+
لیپرڈ 2A7 طرز کا ایک جرمن جنگی ٹینکتصویر: KMW/dpa

برلن حکومت اپنی خاموشی کی وجہ وہ خصوصی طریقہء کار بتاتی ہے، جو ’نازک صورتحال‘ والے ملکوں کو ہتھیاروں کی فروخت کے سلسلے میں اپنایا جاتا ہے۔ یعنی ایسے معاہدوں کی وفاقی سلامتی کونسل کہلانے والے ادارے کی طرف سے منظوری لازمی ہوتی ہے۔

فیڈرل سکیورٹی کونسل وفاقی چانسلر کی سربراہی میں قائم جرمن کابینہ کی ایک ایسی کمیٹی ہوتی ہے، جس میں کئی وزراء شامل ہوتے ہیں۔ چونکہ اس کونسل کے کسی بھی اجلاس کی تفصیلات قانوناﹰ خفیہ رکھی جاتی ہیں، اس لیے جرمن عوام کو فوری طور پر یہ خبر نہیں ہوتی کہ کس ملک کو کس طرح کے ہتھیاروں کی برآمدات کی اجازت دی گئی ہے۔

اس پس منظر میں وفاقی سلامتی کونسل کے ایک حالیہ اجلاس میں شریک جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے بھی کوئی تفصیلات بتانے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا، ’’یہ اجلاس خفیہ ہوتے ہیں۔ اس لیے میں آپ کو کسی بھی طرح کی قیاس آرائیوں کا کوئی جواب نہیں دے سکتا اور نہ ہی میں ایسا کروں گا۔‘‘

ایسے ملکوں کو جرمن ہتھیاروں کی برآمد سے متعلق ضابطے بڑے سخت ہیں، جو جرمنی کے اتحادی نہیں ہیں۔ اگر کسی ملک میں انسانی حقوق کا احترام نہ کیا جاتا ہو یا وہاں علاقائی سطح پر کشیدگی پائی جاتی ہو، تو جرمنی ایسے ملکوں کو کوئی ہتھیار فروخت نہیں کر سکتا۔

König Abdullah Saudi-Arabien
سعودی عرب کے شاہ عبداللہتصویر: picture-alliance/dpa

انہی میں سے ایک اصول یہ بھی ہے کہ بحران زدہ علاقوں میں کوئی اسلحہ فروخت نہیں کیا جائے گا۔ اس ضابطے کی پابندی لازمی ہے۔ لیکن پھر بھی بار بار استثنائی فیصلے کیے جاتے ہیں، جن کی باقاعدہ تفصیلات جلد از جلد بھی دو سال بعد وفاقی جرمن حکومت کی ہتھیاروں کی برآمد سے متعلق رپورٹ میں شامل ہوتی ہیں۔

سعودی عرب کو جرمن جنگی ٹینکوں کی فروخت کے بارے میں ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اس معاہدے پر واقعی عملدرآمد بھی ہو گا۔ تاہم جرمن پارلیمان میں اپوزیشن کی تینوں جماعتوں کی طرف سے اس معاہدے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس پر شدید تنقید بھی کی گئی ہے۔

اس بارے میں گرین پارٹی کی سربراہ کلاؤڈیا رَوتھ نے کہا، ’’سعودی عرب نے اپنے ٹینک بھیج کر بحرین میں عوامی جمہوری تحریک کو کچلنے میں وہاں کے حکمرانوں کی مدد کی تھی۔ سعودی عرب بین الاقوامی دہشت گردی میں بھی ملوث ہے اور بار بار طالبان گروپوں کی مدد کرتا ہے۔ میرے لیے یہ جرمن خارجہ سیاست کے قابل اعتماد ہونے کے حوالے سے تباہ کن صورت حال ہے۔‘‘

جرمن اپوزیشن کا پختہ ارادہ ہے کہ اس بارے میں برلن کی وفاقی پارلیمان میں آئندہ دنوں میں کھل کر بحث ہونی چاہیے۔

رپورٹ: نینا ویرک ہوئزر / مقبول ملک

ادارت: عدنان اسحاق