1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب کو مسلسل دوسرے سال بھی بجٹ خسارے کا سامنا

عابد حسین28 دسمبر 2015

خام تیل ایکسپورٹ کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے ملک سعودی عرب کو بھاری بجٹ خسارے کا سامنا ہے۔ سن 2015 کے لیے پیش کردہ بجٹ کو بھی ریاض حکومت نے خسارے کا بجٹ قرار دیا تھا۔

https://p.dw.com/p/1HUao
تصویر: Fotolia/eugenesergeev

آج پیر کی شام میں سعودی عرب کی حکومت اگلے مالی سال یعنی سن 2016 کے لیے سالانہ بجٹ کو پیش کر دیا ہے۔ گزشتہ برس موجودہ سال سن 2015 کے لیے پیش کردہ بجٹ میں ساڑھے سترہ بلین ڈالر کا خسارہ پیش کیا گیا تھا۔ سن 2009 کے بعد یہ پہلا خسارے والا بجٹ تھا اور اب اگلے برس یعنی سن 2016 کے لیے پیش کردہ سالانہ بجٹ میں حکومتی اخراجات کے تناظر میں خسارے کا حجم 130 بلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے اور یہ گزشتہ برس کے مقابلے میں 113بلین ڈالر سے زائد ہے۔

سالانہ بجٹ کی تفصیلات آج سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں حکومتی وزراء نے ایک پریس کانفرنس میں عام کیں۔ بجٹ خسارے اور دوسرے مسائل کی تفصیلات کے لیے تین وزراء کے ہمراہ سعودی تیل پیدا کرنے والی بڑی کمپنی آرامکو کے سربراہ بھی اِس پریس کانفرنس میں موجود تھے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ بجٹ کی تفصیلات پیش کرنے کے لیے تین رکنی وزراء کی کمیٹی کے تمام اراکین پریس کانفرنس میں شریک تھے۔ موجودہ شاہ سلمان کے دورِ حکومت میں پیش کیا جانے والا یہ پہلا بجٹ ہے۔ انہوں نے سابقہ شاہ کی رحلت کے بعد جنوری سن 2015 میں ملکی بادشاہت سنبھالی تھی۔

Saudi-Arabien F-15 Kampfflugzeuge
سعودی عرب کی یمنی جنگ میں شمولیت کو انتہائی مہنگی عسکری مہم قرار دیا گیا ہےتصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine

موجودہ شاہ کے دور میں کئی بنیادی پالیسیوں میں تبدیلی دیکھی گئی اور ملکی مالی ذخائر کو کئی اہم معاملات میں بے دریغ استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا گیا۔ اِس میں خاص طور پر یمن جنگ کے اخراجات بھی اہم خیال کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ گزشتہ برس کے مقابلے میں عالمی منڈیوں میں خام تیل کی قیمتوں میں ساٹھ فیصد سے زائد کمی واقع ہو چکی ہے۔ سعودی معیشت کا نوے فیصد انحصار خام تیل کی ایکسپورٹ پر ہے۔ مسلسل کئی ماہ سے عالمی منڈیوں میں خام تیل کے فی بیرل کی قیمت چالیس ڈالر سے بھی خاصی کم ہے۔ تجزیہ کاروں کے خیال میں خام تیل پیدا کرنے والے ملکوں کی تنظیم اوپیک کے کئی رکن ملکوں کو سعودی عرب کی طرح مسابقت کا بھی سامنا نہیں ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگلے برس ایران سے بھی خام تیل مارکیٹ میں آنے سے سعودی عرب کی اقتصادیات پر بوجھ بڑھ جائے گا۔

سعودی عرب کی یمن جنگ میں شمولیت بھی انتہائی مہنگی جنگی مہم قرار دی جا رہی ہے۔ ملکی خزانے پر پڑنے والے بوجھ کو کم کرنے کے لیے ریاض حکومت نے اپنے محفوظ ذخائر سے اسی بلین ڈالر روزانہ کے حکومتی اخرجات کے لیے مختص رقم میں منتقل کیے تھے۔ اسی کے ساتھ ساتھ اندرونِ ملک سے بھی حکومت کو بیس بلین ڈالر کے قرضوں کا سامنا ہے۔ یہ بیس ارب ڈالر حکومت نے مالی طور پر مستحکم مالی اور کاروباری اداروں سے حاصل کیے ہیں۔ اِس صورت حال کے تناظر میں سعودی شاہ سلمان نے گزشتہ بدھ کو مشاورتی مجلسِ شوریٰ سے خطاب کے دوران اقتصادی اصلاحاتی عمل شروع کرنے کا حکم بھی جاری کیا ہے۔ اِس حکم نامے میں حکومتی اخراجات بڑھاتے ہوئے ریاستی سرمایہ کاری سے نفع حاصل کرنے کو نئی اقتصادی پالیسی کی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔