1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب ڈھائی ملین شامیوں کو پناہ دے چکا ہے، ایس پی اے

مقبول ملک12 ستمبر 2015

ان مطالبات کے جواب میں کہ سعودی عرب کو خانہ جنگی کی باعث مہاجرت پر مجبور اور زیادہ شامی شہریوں کو اپنے ہاں پناہ دینی چاہیے، سعودی عرب نے کہا ہے کہ وہ قریب ڈھائی ملین شامی باشندوں کو پہلے ہی اپنے ہاں پناہ دے چکا ہے۔

https://p.dw.com/p/1GVXj
تصویر: Getty Images/N. Roddis

سعودی دارالحکومت ریاض سے ہفتہ بارہ ستمبر کے روز ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق یہ اعداد و شمار خلیج کی سب سے بڑی ریاست سعودی عرب کا بین الاقوامی سطح پر کیے جانے والے ان مطالبات کے جواب میں پہلا سرکاری ردعمل ہے، جن کے مطابق خلیج کی بہت امیر عرب ریاستیں اب تک شامی مہاجرین کی مدد کے لیے کافی اقدامات کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

سعودی عرب کے سرکاری خبر رساں ادارے سعودی پریس ایجنسی (SPA) نے جمعہ گیارہ ستمبر کو رات گئے ریاض میں ملکی وزارت خارجہ کے ایک اعلیٰ اہلکار کے بیان کا اس ذریعے کا نام لیے بغیر حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ سعودی عرب اب تک جن شامی باشندوں کو اپنے ہاں قبول کر چکا ہے، وہ انہیں مہاجرین نہیں سمجھتا۔

اس کے علاوہ ان لاکھوں شامی باشندوں کو، جو شام میں موجودہ خونریز تنازعے کے آغاز سے اب تک سعودی عرب آ چکے ہیں، اس لیے باقاعدہ مہاجر کیمپوں میں نہیں رکھا گیا کہ ان کی ’سلامتی اور ذاتی وقار کے تحفظ کو یقینی‘ بنایا جا سکے۔

سعودی پریس ایجنسی نے ملکی وزارت خارجہ کے اسی اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ان شامی باشندوں کو سعودی عرب میں نقل و حرکت کی مکمل اجازت ہے اور جن ’کئی لاکھ‘ شامیوں نے سعودی عرب میں قیام کا فیصلہ کیا ہے، انہیں ’باقاعدہ رہائشی حیثیت‘ بھی دے دی گئی ہے۔

Syrien Zerstörung in Ain Tarma
شامی بحران کے نتیجے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد وہاں سے ہجرت پر مجبور ہےتصویر: M. Eyad/AFP/GettyImages

ایس پی اے نے اپنی رپورٹوں میں مزید لکھا ہے کہ ایسے شامی باشندوں کو قانونی رہائش کے اجازت نامے دیے جانے کے بعد انہیں نہ صرف سعودی عرب میں ملازمتیں کر سکنے کے حقوق حاصل ہو گئے ہیں بلکہ انہیں معمول کی مفت طبی سہولیات بھی حاصل ہیں اور ان کے بچے اسکول بھی جا سکتے ہیں۔

رپورٹوں کے مطابق سعودی عرب نے ماضی میں اس بارے میں حقائق کو زیر بحث لانے سے اس لیے احتراز کیا کہ سعودی ریاست شامی باشندوں کی مدد کے لیے کیے گئے ان اقدامات کی تشہیر کے ذریعے ’نہ تو کسی خود ستائشی کی خواہش مند تھی اور نہ ہی اس کا مقصد اس سلسلے میں کوئی بڑی میڈیا کوریج‘ حاصل کرنا تھا۔