سعودی عرب میں فائرنگ، چھ ہلاک
11 فروری 2016سعودی وزارت داخلہ کے ترجمان جنرل منصور الترکی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ملک کے جنوبی صوبہ جازان میں پیش آنے والے اس واقعے میں دو دیگر افراد زخمی بھی ہوئے۔ یہ حملہ مقامی وقت کے مطابق دن دو بجے (عالمی وقت کے مطابق دن 11 بجے) کیا گیا۔ ترکی کے مطابق، ’’یہ ایک مجرمانہ عمل ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک مشتبہ شخص کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔
وزارت داخلہ کے ترجمان فوری طور پر یہ بتانے سے قاصر تھے کہ یہ ہلاکتیں کیسے ہوئیں تاہم اے ایف پی نے مقامی ٹیلی وژن کی رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ ان افراد کو فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا۔ تاہم حملہ آور کی شناخت یا اس حملے کے پیچھے عزائم کے بارے میں معلومات واضح نہیں ہے۔
فائرنگ کا یہ واقعہ یمن کی سرحد سے چند کلومیٹر دور الدیر کے علاقے میں پیش آیا۔ گزشتہ برس مارچ میں سعودی عرب اور اس کے حامی ممالک کے اتحاد کی طرف سے یمن میں فضائی حملے شروع کیے جانے کے بعد سے جازان اور ملک کے دیگر جنوبی سرحدی علاقے یمنی باغیوں کی شیلنگ کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ سعودی سربراہی میں اتحادی ممالک کی یہ کارروائی دراصل یمن میں ایران نواز حوثی باغیوں کی پیشقدمی کو روکنے کے لیے شروع کی گئی تھی۔
یمنی باغیوں کی طرف سے سعودی سرحد کے قریب واقع آبادیوں پر کی جانے والی اس شیلنگ کے نتیجے میں اب تک 90 فوجی اور سویلین ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کے مختلف علاقوں میں فائرنگ اور خودکش حملوں کے نتیجے میں ہلاکتیں بھی ہوتی رہی ہیں۔ ان حملوں کی ذمہ داری دہشت گرد گروپ اسلامک اسٹیٹ کی طرف قبول کی جاتی رہی ہے۔ تاہم سعودی عرب میں بڑے پیمانے پر مجرمانہ فائرنگ کے واقعات شاذ و نادر ہی پیش آتے ہیں۔
29 جنوری کو سعودی عرب کے مشرقی شہر الاحساء کے محاسن نامی علاقے میں میں شیعہ مسلمانوں کی ایک مسجد پر جمعے کی نماز کے وقت کیے گئے ایک خود کش بم حملے میں چار افراد ہلاک جبکہ اور اٹھارہ دیگر زخمی ہو گئے تھے۔