سعودی عرب سے معافی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، حسن روحانی
27 جنوری 2016اطالوی دارالحکومت روم سے بدھ 27 جنوری کے روز موصولہ جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق ایران کے خلاف بین الاقوامی پابندیاں اٹھائے جانے کے بعد ان دنوں اپنا پہلا یوری دورہ کرنے والے صدر حسن روحانی نے آج کہا کہ ایرانی دارالحکومت میں سعودی سفارت خانے پر مشتعل ایرانی مظاہرین کے حالیہ حملے کے سلسلے میں ریاض حکومت سے کوئی معافی نہیں مانگی جائے گی۔
سنی اکثریتی سعودی عرب اور شیعہ اکثریتی ایران کے باہمی تعلقات اس وقت سے انتہائی کشیدہ ہیں، جب چند ہفتے قبل سعودی عرب میں سرکردہ مقامی شیعہ رہنما آیت اللہ النمر کو دہشت گردی کے الزام میں سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین کے ایک بہت بڑے مشتعل ہجوم نے سعودی سفارت خانے پر حملہ کر دیا تھا۔
اس دوران مظاہرین نے سفارت خانے کی عمارت میں شدید توڑ پھوڑ کرنے کے علاوہ اس کے کئی حصوں کو آگ بھی لگا دی تھی۔ اس واقعے کے بعد تہران اور ریاض کے مابین سفارتی تعلقات منقطع ہو گئے تھے اور سعودی عرب کی تقلید کرتے ہوئے ریاض کے اتحادی کئی دیگر ملکوں نے بھی تہران سے اپنے سفیر واپس بلا لیے تھے۔
دونوں ملکوں کے مابین اسی کھچاؤ کے پس منظر میں ایرانی صدر حسن روحانی نے آج اپنے دورہ اٹلی کے آخری روز روم میں کہا، ’’جنہوں نے اس واقعے کے سلسلے میں ایران کی طرف سے باقاعدہ معافی مانگے جانے کا مطالبہ کیا ہے، وہ سفارت کاری کی ’اے بی سی‘ تک سے واقف نہیں ہیں۔‘‘
ایرانی صدر نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’معافی تو دراصل خود سعودی رہنماؤں کو مانگنا چاہیے، النمر کا سر قلم کیے جانے پر، یمن میں بے ثمر رہنے والی بمباری پر، اور شام، لبنان اور عراق میں ناکام رہنے والے سعودی عرب کے ارادوں پر۔‘‘
اپنے اٹلی کے دورے کی تکمیل پر اور فرانس کے دورے پر روانہ ہونے سے قبل صدر روحانی نے اس پریس کانفرنس میں مزید کہا، ’’سعودی ناراض ہیں اور اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے عذر تلاش کر رہے ہیں۔ لیکن اگر وہ ناراض ہیں تو خود کو ٹھنڈا کرنے کے لیے وہ کوئی دوسرے راستے بھی تلاش کر سکتے ہیں۔‘‘
تاہم اپنے اس موقف کے باوجود ایرانی صدر نے یہ وعدہ بھی کیا کہ جن افراد نے تہران میں سعودی سفارت خانے پر حملے کی قیادت کی تھی، ان کی مذمت بھی کی جائے گی اور انہیں ایرانی عدالتوں کی طرف سے سزائیں بھی سنائی جائیں گی۔
حسن روحانی نے اس بارے میں اپنی طرف سے آخری بات یہ کہی، ’’ہم کشیدگی اور کھچاؤ میں اضافہ نہیں چاہتے۔ اس لیے بھی کہ یہ کشیدگی ہماری طرف سے پیدا نہیں کی گئی۔ ہم تصادم کے خواہش مند نہیں ہیں۔‘‘