1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سستی کتابوں کے سلسلے rororo کے ساٹھ سال

تحریر: امجد علی / ادارت: کشور مصطفےٰ22 جولائی 2009

1949ء میں قائم ہونے والا وفاقی جمہوریہء جرمنی اِس سال اپنے قیام کی ساٹھویں سالگرہ منا رہا ہے۔ اس موقع پر سستی کتابوں کے چھ عشرے پہلے شروع کئے جانے والے کامیاب سلسلے کو بھی یاد کیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/IvHQ
جرمن شہر ہیمبرگ میں رو رو رو سلسلے کی سالگرہ پر منعقدہ ایک نمائش میں لی گئی تصویر۔ فائل فوٹوتصویر: picture-alliance/ dpa

دوسری عالمی جنگ تک شاعروں اور مفکروں کی سرزمین کہلانے والے جرمنی میں مطالعہ تعیش کے زُمرے میں آتا تھا۔ کتابیں چمڑے کی جلد اور سنہرے کناروں کے ساتھ بڑے اہتمام سے شائع کی جاتی تھیں اور خاصی مہنگی ہوتی تھیں۔ یہ اُسی طبقے کی دسترس میں تھیں، جو اُنہیں خرید سکتا تھا۔ روووہلٹ پبلشرز نے اِس صورتحال کو تبدیل کرنےکا عزم کیا۔

کئی ہفتوں سے پرنٹنگ مشینیں دن رات کام کر رہی تھیں اور بالآخر جون 1950ء میں رورورو سیریز کی پہلی پیپر بیک کتاب بازار میں لائی گئی۔ تعدادِ اشاعت، پچاس ہزار کاپیاں۔ سائز اتنا چھوٹا کہ آسانی سے جیب میں آ جائے اور قیمت بھی حیرت انگیز حد تک اتنی کم کہ جو چاہے، خرید سکے۔ روووہلٹ پبلشرز کےسستی کتابوں کے سلسلے کو روووہلٹ روٹیشن رومان کا نام دیا گیا اور اِس کا مخفف رکھا گیا، رو رو رو۔ اِن کتب کی اشاعت جرمنی میں کتابوں کے شعبے میں ایک انقلاب کے مترداف تھی۔

Rowohlt mit Rotationsroman
ممتاز جرمن پبلشر ایرنسٹ روووہلٹ، جن کا انتقال 1960ء میں 73 برس کی عمر میں ہوا۔تصویر: Rowohlt

سستی کتابوں کی اشاعت کا یہ خیال روووہلٹ پبلشرز کے نامور بانی ایرنسٹ روووہلٹ کے بیٹے ہائنرش ماریا لیڈِش روووہلٹ کا تھا۔ ہائنرش بتاتے ہیں کہ کیسے اُنہیں یہ خیال امریکہ میں اپنے قیام کے دوران آیا:”یہ قصہ ہے، ایک خوبصورت دن کا۔ تب امریکی دیگر نوجوان جرمن پبلشرز کے ساتھ ساتھ مجھے بھی نیویارک لے گئے تھے۔ آپ کہنا چاہیں تو یہ ایک طرح سے طلبہ کا تبادلہ تھا۔ تو وہیں ایک روز مجھے پہلی مرتبہ سستی پیپر بیک کتابیں دیکھنے کو ملیں، جنہوں نے مجھے اتنا متاثر کیا کہ وہاں سے واپسی پر مَیں نے اپنے والد کو بھی آگاہ کیا اور کہا کہ ہمیں بھی ایسی ہی کتابیں جرمن قارئین کے لئے شائع کرنی چاہییں۔ ہم نے کتابوں کو جوڑنے کا ایک نیا طریقہ دریافت کیا اور یوں پہلی پیپر بیک کتابیں وجود میں آئیں۔“

امریکہ میں پیپر بیک کتابیں ”پاکٹ بُکس“ کہلاتی تھیں۔ اُن کو دیکھتے ہوئے جرمنی میں ابتدا میں جو کتابیں شائع کی گئیں، اُن میں جرمن ادیب ہنس فالاڈاس کی ” لٹل مَین، واٹ ناؤ“، انگریز مصنفوں گریہم گرین اور رَڈیارڈ کِپلنگ کی ”برائٹن رَوک‘‘ اور”دا جنگل بُک“ اور جرمن ادیب کُرٹ طوخولسکی کی ”گرِپس ہولم کاسل“ شامل تھیں۔

Eine Kundin im Taschenbuch - Paradies
کولون کے ایک مشہور بُک اسٹور میں ایک خاتون جرم و سزا کے موضوع پر پیپر بیک کتابیں منتخب کرتے ہوئےتصویر: picture-alliance/dpa

1951ء تک یعنی ایک سال کے اندر اندر یہ اشاعتی ادارہ دَس لاکھ پیپر بیک کتابیں شائع کر چکا تھا۔ جلد ہی دیگر اشاعتی ادارے بھی سستی کتابیں شائع کرنے لگے۔ پھر تو یہ روایت ہی بن گئی کہ پہلے کسی کتاب کا ہارڈ کور ایڈیشن چھپتا تھا اور کچھ ہی عرصے بعد اُس کا پیپر بیک ایڈیشن بازار میں آ جاتا تھا۔

ایرنسٹ روووہلٹ بتاتے ہیں کہ آمدنی میں جو کمی کم قیمت کی وجہ سے رہ جاتی تھی، وہ اِس طرح کی کتابوں کی زیادہ تعدادِ اشاعت سے پوری ہو جاتی تھی:”میری سوچ یہ رہی ہے کہ سستی کتابوں کے ذریعے قارئین کے نئے حلقوں کو مطالعے کی طرف راغب کرنا بے حد اہم ہے۔ میرا تجربہ مجھے بتاتا ہے کہ سستی کتابوں کے ذریعے مطالعے کی طرف راغب ہونے والے قارئین، چاہے دیر سے ہی سہی لیکن یقینی طور پر پھر وہ مہنگی کتابیں بھی خریدتے ہیں، جو پیپر بیک کی شکل میں دستیاب نہیں ہوتیں۔“

Rororo Logo

اِنہی سستی کتابوں میں سب سے پہلے اشتہارات شائع کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا، جسے تب کتاب کی حرمت کا حوالہ دیتے ہوئے بے حد تنقید کا بھی نشانہ بنایا گیا جبکہ آج کل پیپر بیک کتابوں میں اشتہارات شائع ہونا معمول کی بات ہے۔

گذرے تقریباً ساٹھ برسوں میں رو رو رو کے زیر اہتمام سولہ ہزار سے زیادہ سستی کتابیں شائع ہو چکی ہیں، جن کی مجموعی تعدادِ اشاعت چھ سو ملین بنتی ہے۔ اِن سستی کتابوں نے ہر شخص کے لئے مطالعہ کرنا ممکن بنا دیا۔ ممتاز جرمن ادیب اور نوبیل ادب انعام یافتہ تھوماس مان نے پیپر بیک ایڈشنز کے اجراء کو ادب میں جمہوریت کا نام دیا تھا۔