1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سری لنکا میں عام انتخابات، راجا پاکسے کے لیے ریفرنڈم

امتیاز احمد17 اگست 2015

سری لنکا میں آج عام انتخابات کے سلسلے میں ووٹنگ جاری ہے جب کہ جنوری کے صدارتی انتخابات میں غیر متوقع شکست کھا جانے والے سابق صدر راجاپاکسے اپنی واپسی کے لیے انتہائی پر امید نظر آ رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1GGZ0
Sri Lanka Wahlen Plakat Mahinda Rajapaksa
69 سالہ راجاپاکسے ملکی قوم پرست حلقوں میں بہت مقبول ہیںتصویر: Reuters/D. Liyanawatte

رواں برس صدارتی انتخابات میں شکست کھا جانے والے صدر راجاپاکسے کی جانب سے اس عزم کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ وہ غیر متوقع کامیابی حاصل کرتے ہوئے بیس ملین آبادی والے اس ملک کے اگلے وزیراعظم بنیں گے جبکہ ان انتخابات کو راجاپاکسے کے لیے ریفرنڈم قرار دیا جا رہا ہے۔

ان انتخابات میں پارلیمان کی 225 نشستوں کے لیے ووٹ ڈالے جا رہے ہیں۔ پولنگ کا آغاز مقامی وقت کے مطابق صبح سات بجے ہوا، جو بغیر کسی وقفے کے شام تک جاری رہے گی۔ بتایا گیا ہے کہ پولنگ مراکز کے سامنے عوام لمبی لمبی قطاروں میں دکھائی دے رہے ہیں۔ انتخابات کے نتائج کا اعلان ممکنہ طور پر منگل کے روز کیا جائے گا۔

Sri Lanka Parlamentswahlen
تصویر: Getty Images/B. Weerasinghe

آٹھ جنوری کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں سری لنکا کے موجودہ صدر میتھری پالا سری سینا نے راجاپاکسے کو غیر متوقع طور پر شکست سے دوچار کر دیا تھا اور انہوں نے اب بھی کہا ہے کہ وہ اپنی انتظامی اور آئینی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے انہیں وزیراعظم بننے سے روک دیں گے۔ دوسری جانب راجا پاکسے نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ اپنی کامیابی سے صدر کو ان کی حمایت پر مجبور کر دیں گے۔ ہمبنٹوٹا میں اپنے آبائی حلقے میں ووٹ ڈالنے کے بعد ان کا کہنا تھا، ’’ہمیں پختہ یقین ہے کہ ہم جیت جائیں گے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ’’میرا پیغام یہ ہے کہ پرسکون رہیں اور پر امن طریقے سے اپنی فتح سے لطف اندوز ہوں۔‘‘راجا پاکسے کے ان دعوؤں کے برعکس تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سری لنکا کی کوئی بھی جماعت ان انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے گی۔ ان انتخابات میں سری لنکا کی اقلیتی آبادی، جن میں تامل اور مسلمان شامل ہیں، صدر میتھری پالا سری سینا کی جماعت یونائٹیڈ نیشنل پارٹی ( یو این پی) کا ساتھ دے رہے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق زیادہ تر چھوٹی سیاسی جماعتیں یو این پی کے ساتھ اتحاد کرنے کو ہی ترجیح دیں گی۔

69 سالہ راجاپاکسے ملکی قوم پرست حلقوں میں بہت مقبول ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ اُن کی مقبولیت کی وہ لہر ہے جو انہوں نے 2009 ء میں تامل باغیوں کو حتمی طور پر کچلنے میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد حاصل کی تھی۔ راجا پاکسے کے مخالفین ان پر ایک بدعنوان، سفاکانہ اور خاندانی طرز حکومت کا الزام عائد کرتے ہیں جبکہ وہ اسے مسترد کرتے ہیں۔