1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سری لنکا میں ’جلاد‘ کی آسامیاں خالی

6 اکتوبر 2011

سری لنکا کی حکومت نے جلاد کے عہدے پر تقرریوں کی ضرورت ظاہر کی ہے۔ وہاں کام کرنے والے دونوں جلاد ملازمتیں چھوڑ چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/12mk1

سری لنکا میں کم از کم آٹھ سو افراد کو سزائے موت کا سامنا ہے، جبکہ پھانسی کی سزا دینے والا ایک بھی جلاد نہیں ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے کولمبو حکومت کے ایک اعلیٰ عہدے دار کے حوالے سے بتایا ہے کہ انہیں ’جلاد‘ درکار ہیں۔

وزارتِ بحالی و جیل اصلاحات کے سیکریٹری اے دیسانائیکے کا کہنا ہے: ’’جلاد کے عہدے کے لیے دو افراد درکار ہیں۔ اس عہدے پر کام کرنے والے ایک شخص کو ترقی مل چکی ہے جبکہ دوسرا ریٹائرڈ ہو گیا ہے۔‘‘

انہوں نے بتایا: ’’ہم آئندہ ہفتے تک اس عہدے کی تشہیر کا منصوبہ بنا رہے ہیں، جس کے ذریعے درخواستیں طلب کی جائیں گی۔ ہم یہ پوزیشن خالی نہیں رکھ سکتے۔‘‘

دیسانائیکے نے کہا کہ قتل اور منشیات سے متعلقہ جرائم میں سزائے موت پانے والے کم از کم آٹھ سو افراد کی سزا پر عملدرآمد ہو سکتا ہے۔ تاہم کسی بھی فرد کی سزا پر عملدرآمد کے لیے صدر کی منظوری بھی ضروری ہے۔

سری لنکا میں بدھ مت کے پیروکاروں کی اکثریت ہے۔ وہاں 1976ء سے اب تک کسی کو سزائے موت نہیں دی گئی۔ تاہم دوہزار چار میں حکومت نے جنسی زیادتی، منشیات کی اسمگلنگ اور قتل کے جرائم میں اس سزا کو بحال کر دیا تھا۔

Soldaten der Armee in Sri Lanka
سری لنکا کی فوج نے ابھی دو برس قبل ہی تامل باغیوں کو شکست دیتصویر: picture-alliance/ dpa

وہاں بعض وکلاء، سیاستدان اور دیگر افراد سزائے موت کے فیصلوں پر عملدرآمد کو ممکن بنانے کے لیے مہم چلا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مئی دوہزار نو میں تامل باغیوں کے خلاف پچیس سالہ جنگ کے خاتمے کے بعد جرائم میں اضافہ ہو گیا ہے۔

حکومتی فورسز نے مئی 2009ء میں تامل باغیوں کو شکست دے کر طویل عرصے تک جاری رہنے ولی نسلی جنگ کو ختم کر دیا تھا۔ حتمی لڑائی کے دوران ’نو فائر‘ زون میں فوج کی بمباری میں شہریوں کی مبینہ ہلاکتوں پر کولمبو حکومت کو عالمی تنقید کا سامنا بھی رہا۔

 

رپورٹ: ندیم گِل / روئٹرز

ادارت: حماد کیانی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں