سری لنکا: خود کش دھماکہ 28 افراد ہلاک
9 فروری 2009ابھی زیادہ دن نہیں گزرے کہ سری لنکا کے صدر مہندا راجا پکسے نے اعلان کیا تھا، ملک کے شورش زدہ علاقوں میں باغیوں کو شکست کا سامنا ہے۔ تاہم ہزاروں شہری ابھی تک بحران زدہ علاقوں میں پھنسے ہیں۔ شدت پسندوں کی جانب سے بڑھتے ہوئے خود کش دھماکوں نے امن و امان کی صورت حال کو مزید گھبیربنا دیا ہے۔
لبریشن ٹائیگرزآف تامل ایلام نے پیر کو سری لنکن فوج پر ایک ہفتے کے دوران تیسرا خود کش حملہ کیا۔ اس مرتبہ حملہ آورایک خاتون تھی۔ وہ جنگ زدہ علاقوں سے آنے والے شہریوں میں شامل تھی اوراس نے وشوامدھوعلاقے کے قریب خودکو ایک حفاظتی چیک پوائنٹ پر دھماکے سے اُڑا دیا۔ فوج نے حالیہ لڑائی میں یہ علاقہ باغیوں سے واپس حاصل کیا ہے۔
فوج کے ترجمان بریگیڈیئر اُدھے نانایاکر کے مطابق مرنے والوں میں دو فوجی افسران، 18 سپاہی اور آٹھ شہری شامل ہیں جن میں زیادہ تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔
امریکہ نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تامل شہریوں کو شورش زدہ علاقہ چھوڑنے سے روکنے کی کوشش ہے۔ سری لنکا کے لئے بھارتی امن مشن کے ایک سابق اینٹیلی جنس سربراہ کرنل ریٹائرڈ ہری ہرن نے خبررساں ادارے رائٹرز سے گفتگو میں کہا کہ بحران زدہ علاقوں میں شہریوں کی موجودگی باغیوں کے لئے دفاع کا آخری حربہ ہے۔
فوجی ذرائع کا کہنا ہے کہ لڑائی کے علاقوں سے نکلنے والے شہریوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اور جمعرات سے اب تک محفوظ مقامات کی طرف آنے والے شہریوں کی تعداد 17 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے ۔
امدادی اداروں کے مطابق ڈھائی لاکھ شہری ابھی تک جنگی علاقے میں پھنسے ہیں جبکہ حکومتی ذرائع کے مطابق یہ تعداد ایک لاکھ 25 ہزار تک ہے۔ سری لنکا کی حکومت اور انسانی حقوق کے اداروں نے باغیوں پر الزام لگایا ہے کہ وہ شہریوں کو اپنا علاقے چھوڑے سے روک رہے ہیں۔ باغیوں نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ فوج دانستہ شہریوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔
سری لنکن فوج اور ایل ٹی ٹی ای کے باغیوں کے درمیان لڑائی اب صرف 175 مربع کلومیٹر کے علاقے میں جاری ہے جہاں 50 ہزار سری لنکن فوجی دو ہزار باغیوں سے لڑ رہے ہیں۔
امریکہ، یورپی یونین، کینیڈا اور بھارتی حکومتیں باغیوں کو دہشت گرد قرار دے چکی ہیں۔
سری لنکن فوج نے2007 میں ملک کے شمالی علاقے کا کنٹرول باغیوں سے لے لیا تھا، پھر بھی وہاں وقفے وقفے سے فوج اور شدت پسندوں کے درمیان جھڑپیں جاری رہیں۔ تامل باغیوں اور فوج کے درمیان 1983 سے جاری اس لڑائی میں اب تک 70 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ لاکھوں افراد بے گھر ہوئے ہیں۔