1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سرکریک کا مسئلہ، تیل کے کنویں اضافی کشش ہیں

20 مئی 2011

سرکریک کے متنازعہ سمندری علاقے میں تیل کے کچھ کنویں ہیں اور وہاں تیل کی موجودگی کا امکان ہے۔ یہ اس علاقے کی ایک اضافی کشش ہے۔ دوسرا اور بنیادی مسئلہ حد بندی کا ہے کہ حد بندی کس طریقے سے کی جائے۔

https://p.dw.com/p/11KTm
تصویر: AP

پاکستان اور بھارت کے درمیان سرکریک کے متنازعہ سمندری علاقے پر راولپنڈی میں جاری دو روزہ مذاکرات کا پہلا دور مکمل ہو گیا ہے۔ جمعے کے روز ان مذاکرات میں آٹھ رکنی بھارتی وفد کی قیادت سرویئر جنرل آف انڈیا ایس سبھا راؤ نے کی جبکہ پاکستانی وفد کی سربراہی ایڈیشنل سیکرٹری وزارت دفاع ریئر ایڈمرل شاہ سہیل مسعود نے کی۔

اسلام آباد میں دفتر خارجہ سے جاری ہونیوالے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کو انتہائی اہمیت دیتا ہے اور ان کے ذریعے تمام مسائل کے حل کے لیے پر امید ہے۔ وزارت دفاع کے ذرائع کے مطابق جمعے کے روز مذاکرات کے پہلے دور میں دونوں ممالک کی بحریہ کی طرف سے تیار کیے گئے سرکریک کے سروے کا تبادلہ کیا گیا۔

اس کے علاوہ اس علاقے کی تازہ صورتحال پر دونوں جانب سے ایک دوسرے کو بریفنگ بھی دی گئی۔ دفاعی تجزیہ نگار وائس ایئر مارشل ریٹائرڈ شہزاد چوہدری کے مطابق سرکریک کے معاملے پر پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کے آٹھ دور ہو چکے ہیں لیکن بقول ان کے بھارت کی فوجی اسٹیبلشمنٹ اب تک اس معاملے کو لٹکاتی آئی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’بنیادی طور پر یہ حد بندی کا مسئلہ ہے کہ حد بندی کس طریقے سے کی جائے۔ کریک کا کتنا حصہ ان کی طرف جاتا ہے یا پاکستان کی طرف آتا ہے کیونکہ تقسیم کے وقت ان علاقوں کی حد بندی نہیں کی جا سکی تھی۔‘‘

Manmohan Singh und Syed Yousuf Raza Gilani in Ägypten
سرکریک کے معاملے پر پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کے آٹھ دور ہو چکے ہیںتصویر: AP

انہوں نے مزید کہا، ’’یہاں پر اصل میں تیل کے کچھ کنویں ہیں اور تیل کی موجودگی کا امکان ہے۔ بلکہ بھارت کی طرف سے تو پہلے ہی اس پر کام شروع کیا جا چکا ہے۔ یہ اس علاقے کی ایک اضافی کشش ہے لیکن یہ معاملہ حل ہو جائے ہے تو یہ علامتی طور پر بہت اہم ہوگا کیونکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کم از کم ایک مسئلہ تو حل ہوتا نظر آئے گا۔‘‘

سرکریک پر چار سال قبل ہونیوالے مذاکرات کے آخری دور میں دونوں ممالک نے چھیانوے کلومیٹر طویل اس آبی پٹی کے تنازعے کے حل میں کافی پیشرفت کر لی تھی، جو رن آف کچھ کے علاقے میں بھارتی گجرات اور پاکستانی صوبہ سندھ کو تقسیم کرتی ہے۔

پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ تنویر احمد خان کا کہنا ہے کہ سیاچن کے مقابلے میں سرکریک کا مسئلہ فوری طور پر قابل حل ہے کیونکہ اس ضمن میں کام تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’اس تنازعے کو تو حل کرنا ہوگا۔ اقوام متحدہ کی سمندری حدود کے تنازعات کے حل کے لیے ایک ڈیڈ لائن ہے۔ اگر اس کے اندر فیصلہ نہ ہوا تو کچھ اور قوانین بھارت پر لاگو ہوں گے اور ایسا نہ ان کے لیے اور نہ ہمارے لیے مفید ہوگا۔ اس لیے اس معاملے کو آپس میں حل کر لیا جائے تو بہتر ہے۔‘‘

پاکستان اور بھارت کے درمیان سرکریک پر دو روزہ مذاکرات کا کل حتمی دور ہو گا۔ مذاکرات کے آخر پر ایک مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا جائے گا۔

رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد

ادارت: امتیاز احمد

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں