1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سراروغہ پاکستانی فوج کے کنٹرول میں

18 نومبر 2009

تقریباچار ہفتے قبل وزیرستان کے محسود قبائل پر فوج کشی کا آغاز ہوا تو اعلان شدہ مقصد اس علاقے سے طالبان کے گڑھ کا صفایا کرنا اور یہاں حکومت کی عملداری قائم کرنا تھا۔پاکستانی فوج اس مقصد میں بہرحال کامیاب دکھائی دیتی ہے۔

https://p.dw.com/p/KaIs
پاکستانی وزیراطلاعات فوجی ترجمان کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دورانتصویر: dpa

آپریشن سے کئی روز قبل مقامی آبادی کو خبردار بھی کر دیا گیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ آج بیت اللہ محسود گروپ کا ہیڈ کوارٹر سراروغہ اور لدھا عملاً سنسان پڑے ہیں۔ تمام آبادی نقل مکانی کر چکی ہے لیکن یہاں عسکریت پسندوں کی جگہ پاکستانی فوج اور فرنٹیئر کور نے لے لی ہے جبکہ لدھا اور مکین کے درمیان تقریباً نصف کلومیٹر کے علاقے میں چھپے کم از کم 35 عسکریت پسندوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔

سراروغہ وہ مقام ہے، جہاں حکومت نے فروری 2005ء میں بیت اللہ محسود کے ساتھ امن معاہدہ کیا تھا لیکن اسی معاہدے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تحریک طالبان نے گزشتہ برس فروری میں سرا روغہ کے ایک قلعے پر قبضہ کر کے یہاں فرنٹیئر کور کے ایک درجن کے قریب اہلکاروں کو ہلاک کرنے کے بعد یہاں عملاً اپنی عملداری قائم کر لی تھی۔

Flash-Galerie Pakistan: Militär in Bannu, Waziristan
فوج جنوبی وزیرستان کے کئی علاقوں پر کنٹرول حاصل کر چکی ہےتصویر: AP

یہاں کے کمانڈنگ افسر بریگیڈیئر شفیق کا کہنا ہے کہ سراروغہ پر قبضہ آسان نہیں تھا: ’’سراروغہ کو بچانے کےلئے ہمیں بہت زیادہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ خاص طور پر سراروغہ کے مشرق کی طرف بہت زیادہ لوگ موجود تھے جبکہ مغربی سمت میں نسبتاً کم تھے۔ ان لوگوں میں زیادہ تعداد ازبک اور عراقی باشندوں کی تھی کیونکہ جب ہم علاقہ کلیئر کر رہے تھے تو ہمیں وہاں سے ان کی زبان میں پمفلٹس اور ان کے آپس میں رابطوں کے دوران جس زبان میں وہ بات کرتے تھے اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ازبک اور عراقی تھے۔ پکڑے جانے والے اور لڑائی میں مارے جانے والے عسکریت پسندوں میں زیادہ تر ازبک باشندے تھے۔ گرفتار ہونے والوں سے تحقیقات جاری ہیں۔‘‘

سرکاری ذرائع کے مطابق حالیہ آپریشن میں پانچ سو سے زائد عسکریت پسند مارے جا چکے ہیں جبکہ ابتدائی اندازوں کے مطابق یہاں موجود عسکریت پسندوں کی تعداد دس سے بیس ہزار کے درمیان تھی۔ اندازہ ہے کہ ان کی اکثریت پہلے ہی نسبتاً محفوظ مقامات یعنی کرم اور مہمند ایجنسی جیسے علاقوں یا افغانستان کی طرف فرار ہو چکی ہے۔ تاہم فوجی آپریشن کی اب تک کی پیش رفت کا اہم ترین نقطہ ان علاقوں پر ریاستی عملداری کا قیام ہے، جو چند ہفتے پہلے تک دہشت گردوں اور خودکش حملہ آوروں کے تربیتی کیمپوں کا مرکز بن چکے تھے۔

رپورٹ : امتیاز گل، سراروغہ

ادارت : عاطف توقیر