’ستر فيصد مرد مہاجرين اتنے بيمار کہ سفر کے لائق نہيں‘
16 جون 2016وزير داخلہ تھوماس ڈے ميزيئر نے کہا ہے کہ ايسے سرٹيفيکيٹس کافی زيادہ تعداد ميں جاری کيے جا رہے ہيں۔ انہوں نے يہ بات جرمنی کے ايک علاقائی اخبار ’رائنيشے پوسٹ‘ سے بات چيت کے دوران کہی، جس کی تفصيلات جمعرات سولہ جون کے روز شائع ہوئیں۔
يہ امر اہم ہے کہ گزشتہ برس سياسی پناہ کے ليے جرمنی پہنچنے والے مہاجرين کی تعداد 1.1 ملين سے بھی زائد رہی۔ مشرق وسطیٰ، شمالی افريقہ اور ايشيا کے چند ممالک سے تعلق رکھنے والے پناہ گزينوں کی ريکارڈ تعداد ميں آمد کے نتيجے ميں نہ صرف مہاجرین مخالف اور دائيں بازو کی قوتوں کی عوامی سطح پر مقبوليت ميں اضافہ ہوا ہے بلکہ داخلی سکيورٹی کے حوالے سے بھی تحفظات سامنے آئے ہيں۔ تاہم يورپی يونين اور ترکی کے مابين رواں سال مارچ ميں طے پانے والے معاہدے کے سبب مہاجرين کی يورپ آمد ميں خاطر خواہ کمی رونما ہوئی ہے۔
آج شائع ہونے والے ’رائنيشے پوسٹ‘ کو ديے اپنے انٹرويو ميں وزير داخلہ ڈے ميزيئر نے کہا کہ جرمن ڈاکٹر اب بھی ايسے مواقع پر کہ جب کسی کو صحت کی بنياد پر ملک بدری سے روکے جانے کا کوئی جواز نہيں، کافی زيادہ سرٹيفيکيٹ جاری کر رہے ہيں۔ انہوں نے مزيد کہا، ’’يہ درست نہيں ہو سکتا ہے کہ چاليس برس سے کم عمر کے ستر فيصد سے زيادہ مردوں کو ملک بدری سے قبل بيمار اور سفر کے ليے نا اہل قرار دے ديا جائے۔‘‘
جرمن وزير نے مزيد کہا ہے کہ اگر مہاجرين اپنی شناخت کے تعين اور سياسی پناہ کی درخواست کے نا منظور ہو جانے کی صورت ميں متعلقہ حکام کے ساتھ تعاون نہيں کرتے، تو انہيں دی جانے والی سہوليات ميں کمی کی جانی چاہيے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے ميں قانون سازی گزشتہ برس مکمل کر لی گئی تھی اور اس پر زيادہ کارآمد انداز ميں عملدرآمد لازمی ہے۔