ستر غیر ملکی تنظیموں کو پاکستان میں کام کرنے کی دوبارہ اجازت
31 مارچ 2017پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے جمعہ اکتیس مارچ کو موصولہ جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق ایک سرکاری اہلکار نے بتایا کہ ملک میں ایسی جن 70 انٹرنیشنل این جی اوز پر 2015ء میں پابندی لگا دی گئی تھی، انہیں اب پاکستان میں اپنے منصوبوں پر کام کرنے کی دوبارہ اجازت دے دی گئی ہے۔
تب اکتوبر 2015ء میں اسلام آباد حکومت نے بیرون ملک سے آ کر پاکستان میں کام کرنے والی این جی اوز کی رجسٹریشن سے متعلق ایک نیا نظام متعارف کرایا تھا، جس کے نتیجے میں ان غیر ملکی اداروں کو اپنا کام بند کرنا پڑ گیا تھا۔
پاکستان: 23 غیر ملکی این جی اوز کی رجسٹریشن منسوخ ہو گی
غیر سرکاری اداروں کی سخت نگرانی ضروری، پاکستانی وزارت داخلہ
’سیو ڈی چلڈرن‘ کیا پاکستانی مفادات کے خلاف مصروف عمل تھا؟
اسلام آباد میں پاکستانی وزارت داخلہ کے ترجمان سرفراز حسین نے جمعے کے روز ڈی پی اے کو بتایا کہ قریب ڈیرھ برس قبل عائد کردہ اس پابندی کے بعد نئے رجسٹریشن نظام کے تحت جن 134 غیر ملکی این جی اوز نے اس جنوبی ایشیائی ملک میں کام کرنے کے لیے اجازت ناموں کی درخواستیں دی تھیں، ان میں سے 70 کو یہ پرمٹ جاری کر دیے گئے ہیں۔
وزارتی ترجمان کے مطابق باقی ماندہ 64 غیر حکومتی تنظیموں کی درخواستوں پر فیصلے ہونا ابھی باقی ہیں۔ حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ اس نے انٹرنیشنل این جی اوز سے متعلق رجسٹریشن کا جو نیا نظام متعارف کرایا ہے، اس کی مدد سے ملک میں خود ان ہی اداروں کے کارکردگی کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔
ڈی پی اے نے یہ بھی لکھا ہے کہ سکیورٹی ذرائع کے مطابق پاکستانی حکومت ملک میں فعال غیر ملکی این جی اوز کی مصروفیات پر اس لیے بھی زیادہ بہتر طور پر نظر رکھنا چاہتی ہے کہ اس طرح قومی سرحدوں کے اندر ممکنہ غیر ملکی جاسوسی کا راستہ روکا جا سکے۔
پاکستان میں غیر ملکی این جی اوز پر اس پابندی کی ایک وجہ ’سیو دا چلڈرن‘ نامی بین الاقوامی غیر حکومتی تنظیم کے خلاف یہ الزامات بھی بنے تھے کہ یہ غیر ملکی ادارہ مبینہ طور پر پاکستان میں جاسوسی میں ملوث تھا۔
’این جی اوز کو کوئی کھلی چھٹی نہیں‘ پاکستانی وزیر داخلہ
پاکستان میں امدادی تنظیم ’سیو دا چلڈرن‘ کے دفاتر سربمہر
ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ اس الزام کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ پاکستانی ڈاکٹر شکیل آفریدی کو مبینہ طور پر ایک نام نہاد ویکسینیشن مہم سے متعلق تربیت ’سیو دا چلڈرن‘ نے ہی دی تھی۔ شکیل آفریدی وہ پاکستانی ڈاکٹر ہیں، جنہوں نے القاعدہ کے روپوش رہنما اسامہ بن لادن کی تلاش میں امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی مدد کی تھی۔ شکیل آفریدی پاکستان میں کئی برسوں سے جیل میں ہیں۔
شکیل آفریدی کی مدد سے اس تصدیق کے بعد کہ اسامہ بن لادن تب ایبٹ آباد میں ایک نجی رہائشی کمپاؤنڈ میں مقیم تھا، امریکی فوجی کمانڈوز نے مئی 2011ء میں وہاں رات کے وقت ایک خفیہ آپریشن کر کے بن لادن کو ہلاک کر دیا تھا۔
بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں غیر ملکی این جی اوز سے متعلق جو نئی پالیسی اپنائی گئی ہے، اس میں ایسی تنظیموں کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ ہر قسم کی ریاست دشمن مصروفیات، منی لانڈرنگ، دہشت گردی کے لیے وسائل مہیا کرنے، ہتھیاروں کی اسمگلنگ اور دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ رابطوں جیسی تمام سرگرمیوں سے باز رہیں۔