1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سانحہ مناوا ں کی تحقیقات،اہم انکشافات کا امکان

تنویر شہزاد، لاہور30 مارچ 2009

پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مناواں پولیس ٹریننگ سینٹر کے قریب سے زندہ گرفتار کئے جانے والے ایک دہشت گرد سے ملنے والی معلومات کی روشنی میں سوموار اور منگل کی درمیانی رات ایک آپریشن شروع کیا ہے ۔

https://p.dw.com/p/HN4N
ایک زخمی پولیس اہلکار کو طبی امداد فراہم کی جارہی ہےتصویر: AP

اعلیٰ سطحی ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں ملک کے کئی علاقوں میں چھاپے مار کر ایک درجن سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔

وفاقی مشیر داخلہ رحمن ملک کے مطابق سوموار کی شام تک ہونے والی تحقیقات میں کئی اہم انکشافات سامنے آئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ مناواں پولیس اسٹیشن میں ہونے والی دہشت گردی کی واردات میں شمالی علاقوں اور افغانستان سے آئے ہوئے لوگ ملوث تھے۔ انہوں نے زندہ گرفتار ہونے والے دہشت گرد کے حوالے سے بتایا کہ اس واردات کی منصوبہ بندی بیت اﷲ مسعود بھی شامل تھے۔

لاہور میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے رحمن ملک کا کہنا تھا کہ مناواں پولیس اسٹیشن پر ہونے والی دہشت گردی کی واردات ان لوگوں کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے جو پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی اےس آئی پر طالبان کے ساتھ روابط رکھنے کا الزام لگاتے رہے ہیں۔

حکام دہشت گردی کے ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے پولیس کو خصوصی تربیت فراہم کرنے، پولیس کی یونیفارم کی عام مارکیٹ میں فروخت پر پابندی لگانے اور اجنبی لوگوں کو کرائے پر مکان دینے کے حوالے سے نئی قانون سازی کرنے سمیت کئی تجاویز پر غور کر رہے ہیں۔

یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ پاکستان میں حکام کو پولیس کے مراکز پر دہشت گردانہ حملوں کی اطلاع پہلے ہی مل چکی تھی۔

Pakistan Rehman Malik Advisor
پاکستانی وزیر اعظم کے مشیر برائے داخلہ امور رحمان ملکتصویر: Abdul Sabooh

27 مارچ کو پنجاب کے سیکیرٹری داخلہ، انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب اور سٹی چیف پولیس آفیسر کو دہشت گردی کی ایسی واردات کے خدشے سے با ضابطہ طور پر آگاہ کر دیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں کیا حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے؟ اس سوال کا جواب دینے کے ذمہ دار سینئر پولیس افسران ابھی صرف مناواں آپریشن کی کامیابی کی خوشی منانے میں مصروف ہیں۔


سینکڑوں پولیس اہلکاروں کو زندہ بازیاب کرا لینے کے سرکاری دعوے دار فی الحال یہ بات سننے کے موڈ میں نہیں ہیں کہ بر وقت حفاظتی انتظامات کر کے کئی معصوم لوگوں کی زندگیاں بچائی جا سکتی تھیں۔

ادھر پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے الزام لگایا ہے کہ مناواں پولیس ٹریننگ سینٹر پر ہونے والی دہشت گردی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پنجاب کی موجودہ انتظامیہ نے تمام اہل اور محنتی پولیس افسروں کے تبادلے کر دئیے ہیں۔ ان کے مطابق حال ہی میں پنجاب انتظامیہ کی طرف سے اپنی پسند کے لگائے گئے افسران پنجاب میں امن و امان کی صورتحال کو کنٹرول کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے۔

لبرٹی حملوں کے 27 دنوں بعد ہونے والی دہشت گردی کی تازہ واردات کے بعد لاہور شہر میں دکھ اور خوف کی فضا طاری ہے۔ پنجاب میں سیکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ہے۔ شہر میں آنے جانے والے راستوں کی نگرانی کی جا رہی ہے۔ کینٹ کے علاقوں میں مسلح فوجی اہلکار اہم چوکوں پر پوزیشنیں سنبھالے بیٹھے ہیں۔ شہر کے ہسپتالوں میں سو کے لگ بھگ زخمی افراد لائے جا چکے ہیں۔ ان میں سے تین افراد کی حالت نازک بیان کی جا رہی ہے۔

لاہور کے ہستپالوں میں رقت آمیز مناظر دیکھے جا رہے ہیں۔ ڈاکٹروں کی چھٹیان منسوخ کر دی گئی ہیں اور بڑے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔ لاہور کے ایک ہسپتال کے باہر اس وقت صورتحال بہت تکلیف دہ ہو گئی جب جاں بحق ہونے والے ایک پولیس اہلکار کی دھاڑیں مار مار کر روتی ہوئی ایک عزیزہ نے پیپلز پارٹی پنجاب کے رہنما راجہ ریاض کا گریبان پکڑ کر پوچھا کہ اس کا بیٹا کب واپس آئے گا؟

سانحہ مناواں کی تحقیقات کے لئے قائم کی جانے والی اعلیٰ سطحی کمیٹی نے اپنا کام شروع کر دیا ہے اس سلسلے میں اہم انکشافات سامنے آنے کی توقع ہے۔