زمبابوے میں سیاسی خلفشار اور ہیضے کی وبا
24 دسمبر 2008صدر رابرٹ موگابے عالمی دباؤ کی پروا نہ کرتے ہوئے مستعفی ہونے کو تیار نہیں۔ زمبابوے سیاسی اور اقتصادی بحران میں دھنستا ہی چلا جا رہا ہے جبکہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف نے کہا ہے کہ اس افریقی ملک میں ہیضے کی وبا بھی انتہائی تشویشناک صورت اختیار کر چکی ہے۔ بچوں کے اس امدادی ادارے کا کہنا ہے کہ اس جان لیوا بیماری کے نتیجے میں اب تک 1174 ہلاکتوں کی تصدیق ہو چکی ہے جن میں سے 51 افراد تقریبا گزشتہ ایک ہفتے میں ہلاک ہوئے ہیںِ۔
زمبابوے میں یونیسیف کے نمائندے روئے لینڈ موناش نے جنیوا میں ایک ٹیلی فونک نیوز کانفرنس کے دوران بتایا کہ گزشتہ پانچ دنوں میں مزید تین ہزار افراد اس بیماری میں مبتلا ہوئے ہیں اور اب ہیفے کی وبا کے شکار افراد کی تعداد تقریبا 24 ہزار ہو گئی ہے۔
یونیسیف کے مطابق زمبابوے میں ہیضے کی وبا پر مکمل قابو پانے میں چھ ماہ کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس بیماری کے شکار افراد میں سے پانچ فیصد کی حالت انتہائی تشویشناک ہے۔
اقوام متحدہ کے ان بیانات کے برعکس زمبابوے کے صدر رابرٹ موگابے نے ابھی چند روز قبل ہی کہا تھا کہ ملک سے ہیضے کی وبا ختم ہو چکی ہے۔ "میں یہ بتاتے ہوئے خوش ہوں کہ ڈاکٹروں نے ہیضے کی وبا پر قابو پالیا ہے۔ اب اس وبا کا مکمل خاتمہ ہو گیا ہے۔"
ہرارے حکومت نے اس مہینے ملک میں ہیضے کی وبا پھیلنے پر ہنگامی حالت کا اعلان کیا تھا۔ حکومت نے یہ بھی تسلیم کیا تھا کہ ملکی ہسپتال صحت کی سہولتیں فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق ہیضے کی وبا پھیلنے کی وجہ گندہ پانی اور صحت کے شعبے سمیت دیگربنیادی شہری سہولتوں کی عدم دستیابی ہے۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ زمبابوے کی تقریبا نصف آبادی یعنی 55 لاکھ افراد کو امدادی خوراک کی فوری ضرورت پڑ سکتی ہے۔
عالمی برادری زمبابوے کے عوام کی اس حالت کا ذمے دار صدر موگابے کو قرار دیتی ہے اور ان پر مستعفی ہونے کے لئے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ افریقہ میں امریکی مندوب جینڈائی فریزرنے کہا ہے کہ زمبابوے میں رابرٹ موگابے کے بجائے کوئی دوسرا شخص مشترکہ اقتدار کا معاہدہ نافذ کرے۔ "رابرٹ موگابے ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں اور انہیں مستعفی ہوجانا چاہئے۔ انہیں ریٹائر ہوجانا چاہئے۔ ان کا وقت ختم ہو گیا ہے۔ "
اُدھر صدر موگابے عالمی دباؤ کے باوجود استعفیٰ دینے سے مسلسل انکار کر رہے ہیں۔ انہوں نے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی جانب سے مستعفی ہونے کے تازہ مطالبے کو ردّ کرتے ہوئے اسے مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بش انتظامیہ زمبابوے میں قومی حکومتی مل کو تسلیم نہیں کرتی تو خود صدر بش بھی کوئی اس حکومت کا حصہ تو نہیں ہیں۔
زمبابوے کے حکام نے صدر موگابےسے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرنے پر برطانیہ کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اُدھر فرانس نے بھی ہرارے پر صدر کے استعفے کے لئے دباؤ بڑھا دیا ہے۔
آسٹریلیا کے سابق وزیراعظم Malcolm Fraser نے جنوبی افریقہ پر زور دیا ہے صدر موگابے پر دباؤ بڑھانے کے لئے زمبابوے کو بجلی کی فراہمی بند کر دی جائے۔