رچرڈ ہالبروک کا دورہِ افغانستان
13 فروری 2009امریکی صدر باراک اوباما افغانستان میں طالبان عسکریت پسندوں سے نمٹنے کے لیے سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی پالیسی کو ترک کرکے ایک نئی پالیسی کی تشکیل میں مصروف ہیں۔ اس پالیسی کو عملی جامع پہنانے کے لیے امریکی صدر اوباما نے بوسنیا امن کے معمار رچرڈ ہالبروک کا انتخاب کیا ہے جو تین روز پاکستان میں گزارنے کے بعد جمعرات کو سخت ترین سیکیورٹی میں افغان دارلحکومت کابل پہنچے۔
ان کے دورہِ افغانستان سے قبل طالبان عسکریت پسندوں نے ایک مرتبہ پھر ثابت کردیا کہ افغانستان ہالبروک کے لیے شاید بوسنیا سے زیادہ مشکل امتحان ثابت ہوگا۔ منگل کے روز افغانستان کی سرکاری عمارتوں پر تین مختلف خودکش حملوں اور فائرنگ کے نتیجے میں کم از کم چھبیس افراد ہلاک اور تیس زخمی ہوئے تھے۔ طالبان کی جانب سے کیے گئے یہ حملے شاید ہالبروک کے لیے استقبالیہ پیغام تھے۔
دوسری جانب ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ افغان حکّام نے کابل میں کیے جانے والے حملوں میں پاکستان کے ملوّث ہونے کی تحقیقات شروع کردی ہیں۔
دریں اثناء امریکی صدر باراک اوباما ہالبروک کے زریعے سفارت کاری کے ساتھ ساتھ افغانستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی طاقت میں اضافے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔ امریکہ کے سینیئر فوجی کمانڈروں کے مطابق پندرہ سے تیس ہزار اضافی امریکی افواج جلد افغانستان روانہ کی جاسکتی ہیں۔
رچرڈ ہالبروک نے پاکستان میں تین روز گزارنے کے باوجود کوئی بیان دینے سے گریز کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ خطّے میں سننے اور سیکھنے کے لیے آئے ہیں۔ ہالبروک بھارت کا دورہ بھی کریں گے جس کے بعد وہ امریکی وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن اور صدر اوباما کو دورے کی رپورٹ پیش کریں گے۔