رياستی قرضوں تلے دبے يورپی ممالک اور نيا سال
29 دسمبر 2011يورپ ميں نيا سال اُسی طرح شروع ہو رہا ہے جيسے کہ پچھلا سال ختم ہوا تھا، يعنی ايک ہنگامی سربراہی کانفرنس سے۔ يورپی يونين کے حکومتی اور رياستی سربراہان 30 جنوری کو برسلز ميں جس سربراہی کانفرنس ميں شريک ہوں گے وہ آئندہ اُس وقت تک ہر ماہ منعقد کی جاتی رہے گی، جب تک کہ قرضوں کا بحران ختم نہيں ہوتا۔ اس کانفرنس ميں جرمن چانسلر انگیلا ميرکل اور فرانسيسی صدر نکولا سارکوزی کی قيادت ميں 26 يورپی ملکوں کی ايک نئی مالياتی يونين کے قيام کا معاہدہ تيار کيا جائے گا۔ اس ميں يورپی يونين کا ملک برطانيہ حصہ نہيں لے گا کيونکہ اُس نے اپنے ملک ميں يورو کرنسی رائج نہيں کی ہے۔ يہ نيا معاہدہ، جس ميں رکن ممالک کے قومی بجٹوں کی نگرانی اور معاہدے کی خلاف ورزی پر رکن ملکوں پر جرمانوں کی دفعات بھی شامل ہوں گی، سن 2012 کے دوران ہی نافذ ہو جائے گا۔
رياستی قرضوں کے بحران سے سب سے شديد متاثر ملک يونان کو يورپی يونين اور بين الاقوامی مالياتی فنڈ سے 108 ارب يورو کے دوسرے امدادی پيکج پر بات چيت کرنا ہے۔ ديواليہ پن کے کنارے کھڑے يونان کو اقدامات کا اہل بنائے رکھنے کے ليے ملک ميں نئے انتخابات کو اپريل کے آخر تک ملتوی کر ديا گيا ہے۔
يورو زون کے قرضوں کے بحران ميں پھنسے ممالک کو سن 2012 ميں تقريباً 300 ارب يورو کے قرضوں کی ادائيگی کے ليے نئے قرض لينا ہوں گے۔ سوال يہ ہے کہ کيا انہيں بينکوں سے يہ قرضے قابل برداشت شرح سود پر مل سکيں گے؟ يورو زون کے امدادی فنڈ کا بجٹ زيادہ سے زيادہ 500 ارب يورو کا ہے، جو قرضوں کے بحران کو فرانس تک پھيلنے سے روکنے کے ليے ناکافی ہو گا۔ اس امدادی فنڈ کو رکن ممالک کے مرکزی رياستی بينکوں کی جانب سے مزيد سرمايہ دينے کی سب سے زيادہ مخالفت جرمن مرکزی بينک کے صدر يينس کئير کر رہے ہيں۔
يورو زون کے بحران کا حل نکالنے کے تمام اقدامات پر ريٹنگ ایجنسیوں کی يہ دھمکی تلوار کی طرح لہرا رہی ہے کہ وہ يورپی رياستوں کی مالياتی اہليت کی جانچ پڑتال کر کے اس اہليت ميں کمی کر سکتی ہيں۔ اس کے نتيجے ميں متاثرہ ملک کو قرضے لينے ميں اور زيادہ مشکل پيش آ سکتی ہے اور اُسے بہت زيادہ سود پر قرضے لينے پر مجبور ہونا پڑ سکتا ہے۔
يورپی يونين کو اپنی خارجہ امور کی کم اہل کمشنر کيتھرين ايشٹن کی معيت ميں اہم چيلنجوں کا سامنا ہے۔ شام کی تشدد پسند اسد حکومت سے اُس کا رويہ کيا ہونا چاہيے؟ روس سے يورپی يونين کے روابط کو کيا شکل دينا ہوگی، جہاں مارچ کے صدارتی انتخابات کے بعد احتجاجات ہو سکتے ہيں۔
رپورٹ: بيرنڈ ريگرٹ / شہاب احمد صديقی
ادارت: حماد کيانی