1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

رومانیہ کے انقلاب کے بیس سال

16 دسمبر 2009

انیس سو نواسی میں نیکولائی چاؤ شیسکو کے خلاف بغاوت اور ان کے قتل کے بعد بھی ملکی صورتحال بہت بہتر نہ ہو سکی۔ 1996 تک رومانیہ کی حکومت پر سابق اشتراکی لیڈروں کا غلبہ رہا۔

https://p.dw.com/p/L3xW
تصویر: ullstein bild - Reuters

مشرقی یورپی بلاک میں شامل وسط اور جنوب مشرقی یورپی ریاستوں میں سے ایک، رومانیہ کی اشتراکیت کے بعد کے دور کی تاریخ سب سے زیادہ دلچسپ اور تحریک سے بھرپور ہے۔ آمر حکمران نکولائی چاؤشیسکو کی قومی اشتراکی حکومت سے رومانیہ کے عوام بہت ناخوش تھے۔ اُس دور میں ایک منظم اپوزیشن کا نام و نشان نہیں تھا۔ سماجی نا انصافی اور سیاسی عدم استحکام سے نالاں عوام کے اندر ہلکی ہلکی سلگتی ہوئی بغاوت کی چنگاریاں بالآخرایک خونی انقلاب کا سبب بنیں اور عوام نے فوج کے ساتھ مل کر آمر حاکم نکولائی چاؤشیسکو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ آج سے 20 سال قبل رومانیہ میں اشتراکی حکومت کے خلاف یہ بغاوت انتہائی ڈرامائی انداز میں ہوئی تھی۔

سولہ دسمبر سن 1989 ء کو مشرقی یورپی ملک رومانیہ کے مغربی حصے تیمیسور میں ایک عوامی بغاوت کا آغار ہوا جو چند روز کے اندر مطلق العنان حکمران نکولائی چاؤشیسکو کی حکومت کا تختہ الٹنے کا باعث بنی

رومانیہ کو 1878 سے ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے تسلیم کیا جانے لگا۔ اس نے پہلی عالمی جنگ میں اتحادی قوتوں کا ساتھ دیا اور اس کے سرحدی علاقے وسیع تر ہوتے گئے۔ خاص طور سے Transylvania کا علاقہ بھی اس کی عملداری میں آ گیا۔ 1941 میں سابق سویت یونین پرجرمن قبضے میں بھی رومانیہ نے جرمنی کا ساتھ دیا تھا تاہم تین سال بعد رومانیہ نے سوویت حکومت کے ساتھ ایک عارضی صلح نامے پر دستخط کر دئے تھے۔

Rumänien Geschichte Revolution 1989 Nicolae Ceausescu hingerichtet
چاؤ شیسکو کے قتل کے بعد بھی ملکی صورتحال بہت بہتر نہ ہو سکیتصویر: picture alliance / dpa

دوسری عالمی جنگ کے بعد ایک مشرقی یورپی بلاک وجود میں آیا اور 1947 میں رومانیہ کی اشتراکی ریاست ’پیپلز ریپبلک‘ تشکیل پائی۔ رومانیہ کو سب سے زیادہ سیاسی اور سماجی نقصان آمر حکمران نکولائی چاؤ شیسکو سے پہنچا، جس نے 1965 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد کئی دھائیوں تک اپنی حکومت قائم رکھی۔ اس دور میں عوام کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کی کوئی حد باقی نہیں رہی۔ یہ سلسلہ اّسی کے عشرے تک جاری رہا۔ 1989 میں نیکولائی چاؤ شیسکو کے خلاف بغاوت اور ان کے قتل کے بعد بھی ملکی صورتحال بہت بہتر نہ ہو سکی۔ 1996 تک رومانیہ کی حکومت پر سابق اشتراکی لیڈروں کا غلبہ رہا۔ سابق کمیونسٹ پارٹی کے ایک چوٹی کے لیڈر، Ion lliescu’یون ایلیسکو‘ جوانقلاب کے بعد سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی کا حصہ بن گئے، 1990 سے لے کر 2004 تک ملکی صدر رہے۔ یعنی انہوں نے صدارتی مدت تین بار پوری کی۔ رومانیہ نے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو میں 2004 ء میں شمولیت اختیار کی اور یورپی یونین میں اسے 2007 ء میں رکنیت ملی۔ آج کل رومانیہ کے صدر Traian Basescu ہیں جنہیں حال ہی میں صدارتی الیکشن میں ایک سخت مقابلے کا سامنا تھا تاہم رومانیہ کی عدالت نے انہیں فاتح قرار دے دیا اور یوں وہ دوبارہ 5 سال کی صدارتی مدت پوری کریں گے۔ وہ اس سے پہلے بھی ایک بار صدر رہ چکے ہیں۔ رومانیہ کو سیاسی بحران اور عدم استحکام کے باعث شدید اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے۔

Basescu سے امید کی جا رہی ہے کہ وہ جلد سے جلد حکومت کی تشکیل کا کام مکمل کرکے ملکی بجٹ کو مسلسل خسارے سے بچانے کے لئے اخراجات میں کمی کی پالیسی نافذ کریں گے۔ رومانیہ کی سیاسی صورتحال اور عدم استحکام کے سبب اس ملک کو بین الاقوامی امداد ملنے کا سلسلہ ایک عرصے سے بند ہے۔ نومبرمیں اینٹرنیشنل مونیٹری فنڈ آئی ایم ایف نے رومانیہ کے لئے ڈیڑھ بلین یورو کی امداد روک دی تھی تاہم حالیہ صدارتی انتخاب کے بعد آئی ایم ایف کی طرف سے رومانیہ کی امداد کے سلسلے میں مذاکرات دوبارہ شروع ہوئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق سال رواں کے مقابلے میں 2010 ء رومانیہ کے لئے مزید دشوار ثابت ہوگا کیوں کہ عالمی مالیاتی فنڈ بخارسٹ حکومت سے سخت مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ پبلک سیکٹر پر آنے والے اخراجات میں واضح کمی لائے۔ اس کے نتیجے میں روزگار کی آسامیوں میں بھی کمی واقع ہوگی اور بے روزگاری بڑھنے سے سماجی سطح پر حالات مزید خراب ہوں گے۔

رپورٹ : کشور مصطفیٰ

ادارت : امجد علی