1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روسی فوجی دستے شام میں جنگی کارروائیوں میں شریک

عابد حسین9 ستمبر 2015

لبنان کے مختلف سیاسی اور عسکری ذرائع نے بتایا ہے کہ روسی فوجی شام میں اسد حکومت کے فوجی مشن میں شامل ہو گئے ہیں۔ دوسری جانب روس کا اصرار ہے کہ اُس کے فوجیوں کا جنگی مشن سے کوئی سروکار نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/1GTr2
روسی وزیر خارجہ پیر سات ستمبر کو شام کے دورے پر تھےتصویر: picture-alliance/dpa/Stringer/Ap/Pool

روس نے شام میں اپنے فوجی ماہرین کی موجودگی کی تصدیق کر دی ہے اور اِسی مناسبت سے جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر اشٹائن مائر نے کہا ہے کہ شام میں مزید فوجی مداخلت خطرناک ہو سکتی ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے فرانس اور برطانیہ کو بھی خبردار کیا ہے۔

ابھی دو روز قبل پیر کے روز فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ نے کہا تھا کہ فرانس شام میں جاسوسی کے لیے پروازوں کا آغاز کرے گا تاکہ وہاں فعال انتہا پسند گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے ٹھکانوں پر بمباری پر غور کیا جا سکے۔ برطانیہ نے بھی جہادیوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کا عندیہ دیا ہے۔

جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر اشٹائن مائر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ جولائی میں ایران کے ساتھ طے پانے والی جوہری ڈیل حقیقت میں ایک ایسا پلیٹ فارم ہے کہ جس سے شامی تنازعے کا سیاسی حل ڈھونڈنے میں مدد مل سکتی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ روس اور ایران شام کے صدر بشار الاسد کے مضبوط حلیف ہیں۔ جرمنی مسلسل چار سالہ پرانے شامی تنازعے کے سیاسی حل کی ضرورت پر زور دیتا چلا آ رہا ہے۔ برلن حکومت نے متحارب گروپوں کے ساتھ مذاکراتی عمل کے تسلسل کو تنازعے کے حل کی کلید قرار دیا ہے۔

NATO Tagung Antalya Belek Türkei
جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائرتصویر: Getty Images/Afp/L. Pitarakis

جرمن وزیر خارجہ نے شام میں روسی ماہرین کی موجودگی اور جدید ہتھیاروں کی سپلائی کی خبروں پر افسوس اور مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ روسی وزارتِ خارجہ کے ایک حالیہ بیان کے مطابق ماسکو نے شامی حکومت کو دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے ہتھیار فراہم کیے ہیں۔

روسی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ماریا ذخاروفا نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ماسکو حکومت نے شام کو فوجی آلات اور اسلحے کی ترسیل کو کبھی بھی پوشیدہ نہیں رکھا۔ بدھ کے روز روسی وزارت خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ روسی ماہرین شام میں روسی اسلحہ جات کی ترسیل کے کام میں معاونت کر رہے ہیں۔ شامی حکام نے بھی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ ایک برس کے دوران روسی ماہرین کی موجودگی اور اُن کے دائرہٴ کار کو وسعت دی گئی ہے۔

شامی صورت حال میں تازہ پیش رفت کے حوالے سے روس نے بتایا ہے کہ شام کے لیے اُس کے طیاروں کو ایران اور یونان کی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔ منگل کے روز بلغاریہ نے روس کو اپنی فضائی حدود کے استعمال سے روک دیا تھا۔ صوفیہ حکومت کے مطابق اُسے روسی طیاروں پر لدے سامان پر تحفظات ہو سکتے ہیں۔ روس نے شام کے لیے ترکی کی فضائی حدود استعمال کرنے سے بھی گریز کیا ہے حالانکہ ترکی نے روسی طیاروں کے لیے اپنی فضائی حدود کے استعمال پر کوئی پابندی نہیں عائد کر رکھی ہے۔