1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روبن ملک کی ’’جرمنی اور بھارت 2011-2012: لامحدود مواقع‘‘ فیسٹیول اور بھارت جرمن تعلقات کے حوالے سے گفتگو

14 اکتوبر 2011

جرمنی اور بھارت کے درمیان سفارتی تعلقات کی 60 ویں سالگرہ کے سلسلے میں دو طرفہ تعلقات اور ٹیکنالوجی، ثقافت، ماحولیاتی تحفظ اور کاروبار سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کے لیے مختلف تقریبات کا اہتمام کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/12sIp
روبن ملکتصویر: picture-alliance/dpa

بھارت جرمن فیسٹیول کا بنیادی خیال ’شہری مقامات‘ ہے، جس میں ’’موبائل میٹرو ٹور‘‘ کو خصوصی توجہ حاصل ہے۔ یہ ٹور بھارتی اور جرمن شراکت داروں کے درمیان مل جل کر کام کرنے پر مبنی سات بھارتی شہروں کی منفرد سیر پر مشتمل ہے۔

ڈوئچے ویلے: اس میلے میں شہری مقامات پر کیوں خصوصی توجہ دی جا رہی ہے؟

روبن ملک: ’’جرمنی اور بھارت 2011-2012: لامحدود مواقع‘‘ فیسٹیول صرف ثقافت پر ہی مرکوز نہیں ہے جیسا کہ بھارت میں 2000-2001 جرمن میلے کے دوران ہوا تھا۔ اس میں کاروبار، تعلیم، سیاست اور سائنس پر بھی توجہ دی جا رہی ہے۔ ہم نے ایک مرکزی خیال پر کچھ گفتگو کی تھی جس میں یہ سب مختلف موضوعات شامل ہوں مگر وہ بھارت اور دیگر بڑے شہروں کے لیے مخصوص اور اہم نوعیت کا موضوع ہوتا۔ اسی وجہ سے ہم نے شہری مقامات کا انتخاب کیا۔ تمام موضوعات کا تعلق شہری ترقی، چیلنجوں اور اصلاحات سے ہے۔

ڈوئچے ویلے: شہری مقامات سے آپ کی درحقیقت کیا مراد ہے؟

روبن ملک: اس میں شہری ترقی سے لے کر شہروں میں درپیش چیلنج اور آمدورفت سبھی کچھ شامل ہے، یعنی وہ تمام موضوعات جن کا مختلف زمروں میں شہری ترقی سے کوئی تعلق ہو سکتا ہے۔ اس سے مراد شہروں میں نئے مقامات، مثال کے طور پر عوامی مقامات کو دریافت کرنا بھی ہےکیونکہ ماضی کے ثقافتی منصوبوں میں ان پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی تھی۔ ہماری بعض تقریبات عوامی مقامات پر بھی منعقد ہوں گی۔

Indien Deutschland Merkels Indienreise Ende Mai 2011
بھارت اور جرمنی کے درمیان گزشتہ پچاس سال سے بہت اچھے تعلقات ہیںتصویر: dapd

ڈوئچے ویلے: کیا آپ کے خیال میں بھارت میں اس طرح کے میلوں کے انعقاد کے لیے عوامی مقامات کی تعداد کم ہے؟

روبن ملک: ہرگز نہیں۔ بہت سے عوامی مقامات دستیاب ہیں۔ بات صرف انہیں استعمال کرنے کی ہے۔ ایک چیز تو یہ ہے کہ ان پروگراموں کو لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے قابل رسائی بنایا جائے اور بلاشبہ عوامی مقامات اس کے لئے بہترین انتخاب ہوں گے۔ دوسری جانب اب کہیں زیادہ مواقع موجود ہیں۔ ان میں عوامی آرٹ کے منصوبوں، اوپن ایئر کنسرٹس، سینما پر دکھائی جانے والی فلموں اور ٹورز وغیرہ کی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ ان میں سے بیشتر منصوبے بھارتی اور جرمن شراکت داروں کے درمیان تعاون سے جاری ہیں۔

ڈوئچے ویلے: جرمنی اور بھارت اس شراکت سے کیا حاصل کرنے کی توقع رکھتے ہیں؟

روبن ملک: اس کا مقصد بھارت جرمن دوستی کے لیے نئے اور اضافی رجحانات تلاش کرنا اور مختلف شعبوں میں نہ صرف تعاون کرنا بلکہ اس تعاون کو ان شعبوں میں بھی توسیع دینا ہے، جن پر اس سے پہلے کام نہیں ہوا۔

ڈوئچے ویلے: آپ کے خیال میں پہلے کون سے شعبے نظر انداز رہے ہیں؟

روبن ملک: عوامی آرٹ، جو کہ بہت زیادہ عام نہیں ہے۔ اس کی ایک مثال جمنا ایلبے ہے۔ جمنا دہلی کا دریا ہے اور ایلبے ہیمبرگ کا اہم دریا ہے۔ دو آرٹ ڈائریکٹر ہیں جن میں سے ایک ہیمبرگ میں جبکہ دوسرا دہلی میں ہے اور انہوں نے دونوں ملکوں سے آرٹسٹوں کو آرٹ، مجسمہ سازی اور فلمیں بنانے کی دعوت دی ہے تاکہ وہ ان دریاؤں کے بارے میں اپنے نقطہ نظر اور تصورات کا اظہار کر سکیں اور شہر کے لیے ان کی اہمیت کو اجاگر کر سکیں۔ یہ ایک نئی شکل میں ہو گا اور امید ہے کہ ہم نئے روابط قائم کر سکتے ہیں کیونکہ لوگوں اور اداروں کے درمیان تبادلوں میں اضافہ ہو گا۔ ہمیں امید ہے کہ یہ آئندہ برسوں میں نئے تعاون کا نقطہ آغاز ہو گا۔

ڈوئچے ویلے: میلے کے لیے آپ کن تنظیموں کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں؟

02.2011 DW TV Goethe Institut Partner Logo
بھارت میں گوئٹے انسٹیٹیوٹ کا نام عظیم جرمن اسکالر کے نام پر ماکس ملر بھون رکھا گیا ہے

روبن ملک: اس کے لیے 300 کے قریب منصوبوں کی نشاندہی کی گئی ہے چنانچہ تعاون کے لیے سینکڑوں ادارے اور اس سے بھی زیادہ افراد ہیں۔ اس کا انحصار شعبوں پر بھی ہے۔ ہم تعاون کے وسیع تناظر کا تعارف اور حوصلہ افزائی کرنا چاہیں گے۔ خاص طور پر سائنس، کاروبار اور ثقافت کے میدانوں میں گزشتہ پچاس برسوں سے کافی تعاون ہو رہا ہے۔ مگر اب بھی بعض پہلو اور شکلیں ایسی ہیں، جنہیں مزید دریافت کرنے کی ضرورت ہے۔

ڈوئچے ویلے: جرمنی میں بھارتی تہذیب اور اس کی لوک روایات میں دلچسپی لینے کا کافی زیادہ رجحان پایا جاتا ہے۔ کیا اس میلے کا مقصد تجارتی مفادات کی تلاش بھی ہے؟

روبن ملک: جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں، مختلف شعبے موجود ہیں۔ ان میں سے ایک ثقافت ہے، تعلیم بھی ایک ہے اور اس کے علاوہ سیاست اور کاروبار بھی ہیں، آپ یوں کہہ لیں کہ کاروبار اور تجارتی سرگرمیاں ایک ہی چیز ہیں۔ ایک اور اہم پہلو ماحولیاتی تعاون ہے۔

ڈوئچے ویلے: بھارت میں جرمنی کے بارے میں کیا تصور  ہے اور آپ کے خیال میں میلے کے بعد اس میں کیا تبدیلی آئے گی؟

روبن ملک: میرے خیال میں بھارت کے بارے میں کافی مثبت تصور پایا جاتا ہے مگر اس کا محور مخصوص چیزیں یعنی ٹیکنالوجی اور کاریں ہیں۔ پھر بعض شخصیات بھی کافی مشہور ہیں اور بہت سے عام بھارتی باشندوں میں یہ تصورات پائے جاتے ہیں کہ ایک روایتی جرمن کس طرح کا یا پھر کس طرح کا نہیں ہو سکتا ہے۔ ان میں زندگی، بیئر اور اکتوبر فیسٹیول کے بارے میں تصورات وغیرہ شامل ہیں۔ میرے خیال میں اس کا تعلق ثابت کیا جا سکتا ہے۔ بلاشبہ ایک مقصد ان پہلوؤں کو وسیع کرنا ہے جو اس تصور کی بنیاد ہیں اور ان میں کوئی ایک تصور نہیں بلکہ عصر حاضر کے جرمنی کے بارے میں مختلف تصورات ہیں۔ گوئٹے انسٹیٹیوٹ کو بھارت میں اپنی شاخ کا نام ماکس ملر کے نام پر رکھنے پر کافی مسرت ہے۔ وہ انیسویں صدی کی ایک اہم شخصیت تھے اور اب بھی ہیں اور اکیسویں صدی میں بھی بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن سے بھارت اور جرمنی مل جل کر فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

روبن ملک نئی دہلی میں گوئٹے انسٹیٹیوٹ/ماکس ملر بھوَن کے پروگرام ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا ہیں اور وہ ’’جرمنی اور بھارت 2011-2012: لامحدود مواقع‘‘ فیسٹیول کی رابطہ کاری کر رہے ہیں۔

رپورٹ: مانسی گوپالا کرشنن/حماد کیانی

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں