1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روانڈہ کی بہادر خواتین

dw staff7 اکتوبر 2008

مشرقی افریقی ملک روانڈ ہ کی خواتین نے انیس سوچورانوے میں ہونے والے قتل عام اور نسل کشی کے دوران اپنے پیاروں کو اپنے سامنے مرتےہوئےدیکھا اور خود آبروریزی کا شکار ہوئیں۔

https://p.dw.com/p/FVXT
تصویر: AP

درد، خوف ، صدمے اور مشکلات سے مسلسل جنگ کرتے ہوئے آج روانڈہ کی خواتین نے اپنے ملک کو ایک نئی شکل دینے میں کسی حد تک کامیاب ہو چکی ہیں ۔اس کی سب سے بڑی مثال ستمبر میں ہونے والی پارلیمانی انتخابات ہیں۔ ان انخابات میں خواتین چھپن فی صد نمائندگی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ روانڈا دنیا کا واحد ملک ہے جہاں خواتین اتنی بڑی تعداد میں پارلیمان کا حصہ بنی ہیں۔ روانڈہ کی خواتین کے لیے یہ ایک جیت سے کم نہیں ہے۔ چھیالیس سالہ آگ نس مکا بارنگا بڑے فخر سے کہتی ہیں۔ ’’ہم دنیا کے تمام ممالک سے آگے ہیں ۔ روانڈہ میں تقریباً پچاس فی صد خواتین ارکان پارلیمان ہیں ۔ اس سے پہلے ایسا دنیا میں کہیں بھی نہیں ہوا۔ ‘‘چھیا لیس سالہ آگ نس،سیاست دان، وکیل، گھریلو خاتون اور چار بچوں کی ماں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین مفاہمت، سمجھوتے اور امن کے لیے مردوں کے مقابلے میں زیادہ کوشاں رہتی ہیں ۔ اور انیس سو چورانوے کے پر تشدد واقعات کو بھلانے کے لیے روانڈا کو اسی کی ضرورت ہے۔ ’’ہمارے افریقی معاشرے میں خواتین کو نیان بنگا کہتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ وہ ایک پل کا کام کرتی ہیں ۔ مثال کے طور پر وہ گھر میں مہمانوں کا استقبال کرتی ہیں۔‘‘

Opfer des Völkermordes in Ruanda Vorwürfe gegen Frankreich
نسل کشی کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں بانئے گئے ایک میوزیم میں ہزاروں انسانی کھوپڑیاں رکھی گئی ہیں۔تصویر: AP

اپریل انیس سو چورانوے سے حولائی انیس سو چورانوے تک جاری رہنے والے نسل کشی کے واقعات نے ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا چاہے وہ کسان تھایا پھردانشور۔سو دنوں پر محیط ان ہولناک اور پر تششد د واقعات کے بعد خواتین کو پہاڑ جیسی مشکلات کاسامنا کرنا پڑا۔ کیونکہ ان کے باپ، بھائی، شوہر یا تو مر چکے تھے یا جیل میں تھےیا پھر اپنی جان بچانے کے لیے ملک سے بھاگ چکے تھے۔ ’’مردوں اور لڑکوں کو نسل کشی کا سب سے زیادہ نشانہ بنایا گیا۔ اسی لیے انصاف کی فراہمی، تعمیر نوا ور نئی پالیسیوں کی تشکیل کی ذمہ داری ہم خواتین کے کندھوں پر آن پڑی۔ روانڈہ کی خواتین نے ایک بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ‘‘آگ نس مکا بارنگا اپنا یہ کردار نہایت خوش اصلوبی سے نبھا رہی ہیں۔ وہ افریقی پارلیمان کی ممبر ہیں اور اس سال زمبابوے میں ہونے والے انتخابات میں مبصر کی حیثیت سے موجود تھیں اور وہ روانڈہ بار کانسل کی بورڈ ممبر بھی ہیں۔

Kinder in Ruanda Symbolbild Überbevölkerung
روانڈہ کی خواتین ثقافتی لباس پہنے ہوئے۔تصویر: picture-alliance/ dpa

انیس سو چورانوے کے نسل کشی کے خلاف ہونے والی قانونی کارہ جوئی، ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچانا اور مظلوموں کو انصاف دلانا ان کے کاموں میں شامل ہے۔ تا ہم آگ نس کہتی ہیں کہ ا نسل کشی کرنے والوں کا دفاع کرنا ان کے لیے آسان کام نہیں ہےکیونکہ انہوں نے بھی اپنے کئی چاہنے والوں کو ان فسادات میں کھویا ہے۔ ’’میں انہیں ہمیشہ کہتی ہوں کہ ہمیں مستقبل پر کا سوچ کر اکٹھے چلنا ہے تا کہ ایسا دوبارہ کبھی نہ ہو۔بہت کچھ ہو چکا ہے لیکن پھرا بھی بھی ہمیں ایک لمبا اور کٹھن سفر طے کرنا ہے۔‘‘

روانڈہ کے حوالے سے چند حقائق: سن انیس سو چورانوے کے نسل کشی کے المناک واقع میں صرف چند ہفتوں کے اندر آٹھ لاکھ افراد قتل ہوئے۔ ہوتو نسل کی ملیشیا نے توتسی اور اعتدال پسند ہوتو کا قتل عام کیا تھا۔رپورٹوں کے مطابق اقلیتی توتسی قبیلے نے قتل عام کے خدشے کی وجہ سے اقوام متحدہ سے ہنگامی مدد کی اپیل کی تھی لیکن بین الاقوامی برادری نے کچھ نہ کیا۔ تا ہم بعد مبں

ملزموں کو سزا پہنچانے کے لیے اقوام متحدہ کی طرف سےکئی ایک ٹریبیونلز بنائے گئے۔ علاوہ ازیں اقوام متحدہ کےسابقہ سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے ذاتی اور ادارے کی سطح پر روانڈا میں قتل عام روکنے میں ناکامی کی ذمہ داری قبول کی تھی ۔

روانڈہ حکومت انیس سو چورانوے کے نسل کشی کے المناک واقع کا ذمہ دار فرانس کو ٹھہراتی ہے۔ اپریل دو ہزار آٹھ میں روانڈہ حکومت نے الزام لگایا ہے کہ ایک غیر جانبدار کمیشن میں رپورٹ میں یہ سامنے آئی ہے کہ فرانسیسی حکومت اور روانڈہ میں تعینات فرانسیسی فوج توتسی ملیشیا کی مدد کر رہی تھی۔ اس رپورٹ میں تینتیس سینئر فوجیوں اور سیاسی لیڈروں کو سزا دینے کی اپیل کی گئی ہے۔