1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

رزمک کیڈٹ کالج کے مغوی طالب علم آزاد

افسر اعوان / عابد حسین2 جون 2009

پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبے میں انتہاپسند طالبان کی کارروائیاں اور خاص طور سے غیر قانون عوامل جرائم پیشہ ذہنیت کا عکاس ہیں۔ شمالی وزیر ستان کے مشہور رزمک کیڈٹ کالج کے سینکڑوں طلبہ کا اغوا بھی ایساہی ایک واقعہ ہے۔

https://p.dw.com/p/I1jP
تصویر: Faridullah Khan

گزشتہ روز شمالی وزیرستان میں کیڈٹ کالج رزمک کے اغوا ہونے والے طلبہ کو اغواکاروں کے ہاتھوں سے نجات حاصل ہو گئی ہے۔ طلبا کی درست تعداد تعین ابھی تک ممکن نہیں ہو سکا ہے۔ بعض رپورٹس میں اغوا ہونے والے طلبہ کی تعداد 300 سے زائد بتائی گئی تھی۔ یہ طلبہ چھٹیوں کے باعث کالج بند کیے جانے کی وجہ سے رزمک سے بنوں جارہے تھے۔ ان طلبہ کو طالبان عسکریت پسندوں نے اغوا کیا ہے۔

Soldat in Mingora / Pakistan
طالبان عسکریت پسندوں کی سرکوبی کے لئے مشن پر موجود ایک فوجیتصویر: AP

طلبہ کو اغوا کاروں کے ہاتھوں سے چھڑانے کے عمل میں فوج شامل ہو گئی ہے۔ فوج کو فرنٹیر کانسٹیبلری کے جوانوں کی مدد حاصل رہی۔ فوج کے اغوا کے مقام پر علی الصبح ایک خصوصی ایکشن میں حصہ لیا اور مختلف مقامات پر رکھے تمام طالب علموں کو آزادی دلوا دی۔ یہ کارروائی رزمک چھاؤنی سے تقریباً بیس کلو میٹر کے فاصلے پر کی گئی۔ فوجی ترجمان کے مطابق عملے کے اراکین کے علاوہ اسی کے قریب طلبہ کو اغوا کاروں کے پنجے سے چھڑایا گیا تھا۔

مغوی طلبہ کی تعداد بارے میں متضاد بیانات سامنے آئے تھے۔ یہ تعداد پانچ سہ سے شروع ہو ئی تھی جو بعد میں چار سو اور تین سو سے ہوؤی اکہتر بتائی گئی ہے۔ بقیہ افراد عملے کے ہیں۔

Richard Holbrooke
امریکی صدر کے خصوصی ایلچی رچرڈ ہالبروک اگلے دنوں میں پاکستان پہنچ رہے ہیں۔تصویر: AP

گزشتہ روز بنوں کے ٹاؤن پولیس آفیسر اقبال مروت نے بتایا تھا کہ رزمک کیڈٹ کالج سے طلبہ اور اسٹاف سے بھری 30 بسیں رزمک سے بنوں کے لئے روانہ ہوئیں مگر صرف دو بسیں بنوں پہنچیں جن میں تقریبا 25 طلبہ سوار تھے۔ مروت نے اپنے تازہ بیان میں مغوی طلبا کی تعداد اکہتر بتائی ہے۔

پاکستانی فوج کے زیر انتظام چلنے والے رزمک کیڈٹ کالج میں سویلین افراد کے بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔ اغوا ہونے والے طلبہ کی عمریں 15 سے 25 سال کے درمیان ہیں۔

اقبال مروت کی طرح کیڈٹ کالج کے وائس پرنسپل جاوید عالم کا کہنا ہے کہ 300 سے زائد طلبہ اور عملے کے 30 ارکان کو لے کربسیں بنوں کے لئے روانہ ہوئیں۔ جب یہ بسیں بکا خیل نامی قصبے کے قریب پہنچیں تو نقاب پوش افراد نے ہوائی فائرنگ کرتے ہوئے انہیں اسلحے کے زور پر روک لیا، اور نامعلوم مقام کی طرف لے گئے۔

اغوا سے بچ کر بنوں پہنچنے والی بسوں میں سوار نویں جماعت کے ایک طالب علم محمد شفیق کے مطابق وہ لوگ 30 بسوں کے ایک قافلے کی شکل میں کالج سے بنوں شہر جانے کے لئے روانہ ہوئے تھے۔ اُن کے قافلے کے ہمراہ قبائلی پولیس کی گاڑیاں بھی تھیں۔ محمد شفیق کے مطابق ان کے قافلے کو نقاب پوش افراد نے روک لیا اور بس میں آکر سوالات کئے کہ آیا وہ طلبہ ہیں یا فوجی ریکروٹ۔ انہوں نے یہ سوالات پہلے اردو میں کئے اور بعد میں پشتو میں۔ بچ کر آنے والے اُسی کلاس کے ایک اور طالب علم شاہ حسین کے مطابق ان نقاب پوش افراد نے کچھ وقت تک انہیں روکے رکھا مگر بعد میں اُن طلبہ کو جانے کی اجازت دے دی جن کا تعلق قبائلی علاقوں سے تھا۔ شاہ حسین نے مزید بتایا کہ ہمارے قافلے میں شامل بہت سی بسوں کو وہیں روک لیا گیا۔ تازہ اطلاعات کے مطابق پولیس حکام اغواکاروں کے ساتھ کچھ حوالوں سے بات چیت شروع کردی ہے۔

Pakistan Soldat im Swat-Tal
راکٹ لانچر سے مسلح پاکستانی فوجی، طالبان کے ٹھکانے کو نشانہ بناتے ہوئے۔تصویر: AP

سوات میں جہاں فوجی آپریشن اپنی تکمیل کو ہے وہیں پبائلی علاقوں میں فوجی کارروائی میں اضافے کا امکان ہے۔ مالاکنڈ ڈویژن اور قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کے باعث عام لوگوں کی نقل مکانی جاری ہے۔

ادھر واشنگٹن سے جاری ہونے والے اعلان کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے لئے امریکہ کے خصوصی مندوب رچرڈ ہالبروک اس ہفتے پاکستان کا دورہ کررہے ہیں۔ تین سے پانچ جون تک وہ خطے کا دورہ کریں گے۔ ان کے دورے کا مقصد سوات میں جاری سیکیورٹی فورسز کے آپریشن کے باعث نقل مکانی کرنے والوں کی صورتحال کا جائزہ لینا ہے۔

اعلان کے مطابق ہال بروک پاکستان میں متاثرین کے علاوہ امدادی کارروائی کرنے والی تنظیموں کے نمائندوں اور پاکستانی حکام سے ملاقاتیں کریں گے۔ اقوام متحدہ کے مطابق سوات آپریشن کی وجہ سے 24 لاکھ افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں جو گزشتہ پچاس سالوں کے دوران کسی ملک کے اندر سب سے بڑی نقل مکانی ہے۔