رخسانہ صابری رہا، ایرانی عدالت نے فیصلہ سنا دیا
11 مئی 2009رخسانہ صابری پر امریکہ کے لئے جاسوسی کا الزام تھا اور ایران میں ایک انقلابی عدالت نے انہیں آٹھ برس کی سزائے قید سنائی تھی۔ اپنی سزا کے خلاف رخسانہ صابری نے اپیل دائر کی تھی جس پر ایک عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے اسے منسوخ کردیا۔ رخسانہ صابری کے وکیل کے مطابق یہ ایرانی نژاد امریکی صحافی اس فیصلے کے بعد آزاد ہیں۔
رخسانہ صابری امریکہ اور برطانیہ کے اخبارات اور خبر رساں اداروں، بشمول نیشنل پبلک ریڈیو، بی بی سی اور فاکس نیوز کے لئے کام کرتی رہی ہیں۔ امریکہ اور مغربی ممالک نے ان کی گرفتاری اور پھر ایک ایرانی عدالت کی طرف سے انہیں سنائی گئی سزا کی شدید مذمت کی تھی۔ امریکی صدر باراک اوباما نے رخسانہ صابری پر عائد الزامات کو بے بنیاد قرار دیا تھا۔ رخسانہ کے والد ایرانی اور والدہ جاپانی ہیں۔ جاپان نے بھی رخسانہ کی رہائی کے لئے اپنا سفارتی اثر و رسوخ استعمال کیا تھا۔
رخسانہ صابری کے والدین اور رفقاء نے ان کی رہائی کے فیصلے پر مسرّت کا اظہار کیا ہے۔ ان کے وکیل کے مطابق رخسانہ صابری کی اپیل کی بند کمرے میں ہونے والی سماعت کے بعد سنائے گئے فیصلے میں عدالت نے کہا کہ امریکہ اور ایران دشمن ممالک نہیں ہیں اس لئے رخسانہ پر امریکہ کے لئے جاسوسی کا الزام غیر مئوثر ہے۔
بتیس سالہ رخسانہ صابری کو ایران کی ایک عدالت نے تیرہ اپریل کو سزا سنائی تھی اور اکیس اپریل سے انہوں نے اس فیصلے کے خلاف جیل ہی میں بھوک ہڑتال بھی شروع کردی تھی۔
واضح رہے کہ امریکی صدر باراک اوباما کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ایران کے ساتھ امریکہ کے تعلقات میں نسبتاً بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران کی انقلابی عدالت کی جانب سے رخسانہ صابری پر ’ایک دشمن ملک‘ کے لئے جاسوسی کرنے کے الزام کو اس دلیل کے ساتھ مسترد کیا گیا ہے کہ امریکہ ایران کا کوئی دشمن ملک نہیں ہے۔ مبصرین اس صورتِ حال کو امریکہ اور ایران کے درمیان 1979 میں ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد سے اب تک کی بہت بڑی مثبت تبدیلی قرار دے رہے ہیں۔