راولپنڈی میں دہشت گردی کی کوشش ناکام ، دہشت گردی کاخاتمہ مشکل ہے ناممکن نہیں
6 جون 2008وزیر اعظم کے مشیر برائے داخلہ امور رحمان ملک نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ قبضے میں لینے والی دو گاڑیوں میں ایک ہزار کلو دھماکہ خیز مواد تھا۔
سنیئر پولیس افسر راؤ محمد اقبال نے بتایا کہ جمعرات کی رات کو پولیس نے گشت کے دوان مشتبہ افراد کی تلاش کے لئے چھاپے مارے اور کچھ کو گرفتار کر لیا۔ انہوں نے کہا کہ مزید تحقیقات جاری ہیں اور سیکورٹی وجوہات کی بنا پر وہ مزید معلومات فراہم نہیں کر سکتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق یہ دہشت گرد راولپنڈی میں قائم حساس تنصیبات کو نشانہ بنانے کا اراداہ رکھتے تھے۔
اس سے کچھ روز قبل اسلام آباد میں واقع ڈنمارک کے سفارت خانے میں خود کش حملہ اور پھر اس کی ذمہ داری القاعدہ کی طرف سے منظور کرنا، حکومت کے لئے با عث پریشانی تھا لیکن اس نئے حملے کی منصوبہ بندی نے حکومت کو ایک مرتبہ پھر ہائی الرٹ کر دیا ہے۔
پاکستان بھر میں اور بالخصوص اسلام آباد اور راولپنڈی میں دہشت گردی کی واردات اور منصوبہ بندیوں کو روکنے کے لئے کیا کرنا چاہیے ، یہ ایک ایسا سوال ہے جو زبان زد عام ہے۔
ممتاز سیکورٹی امور کے تجزیہ نگار طلعت مسعود نے ڈوئچے ویلے سے گففگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ مشکل تو ہے لیکن ناممکن نہہں ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جب تک پاکستان میں ہر شہری کو تحفظ فراہم نہیں کیا جائے قوم ترقی نہیں کر سکتی۔
پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے امریکہ تو خیر مدد کر ہی رہا ہے لیکن اب یورپی یونین کے انسداد دہشت گردی کے رابطہ کار جِیل دی کیر کوفے نے بھی کہا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی روک تھام اور بالخصوص القاعدہ کے مقابلے کے لئے پاکستان کی مدد کرنا چاہیے۔