1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دیوار برلن کا انہدام، ایک تاریخ رقم ہوئی

4 نومبر 2009

بہت سے مورخین کی رائے میں بیسیویں صدی کے دوسرے نصف حصے کی یورپی تاریخ کا سب سے اہم واقعہ دیوار برلن کا انہدام ہے۔

https://p.dw.com/p/KOed
برلن کی ایک سڑک جس پر شہر کو ماضی میں دو حصوں میں تقسیم کرنے والی دیوار کے نشانات اب بھی باقی ہیںتصویر: AP

سرد جنگ اور آہنی پردے کے زمانے میں تعمیر کی جانے والی اس دیوار نے عشروں تک دونوں جرمن ریاستوں اور ان کے عوام کو ایک دوسرے سے دور رکھا۔ لیکن نو نومبر انیس سو نواسی کے دن جب یہ دیوار گرائی گئی تو محض ایک سال سے بھی کم عرصے میں کمیونسٹ نظام حکومت والی مشرقی جرمن ریاست ناپید ہو گئی، دونوں جرمن ریاستوں کا اتحاد عمل میں آیا، تبدیلی اورزیادہ آزادی کی عوامی خواہشات کا ایک سیلاب تھا جس کے آگے آہنی پردہ بھی پگھل گیا، اور ساتھ ہی پورے یورپ میں عظیم تر سیاسی اور جغرافیائی تبدیلیوں کا ایک ایسا طویل سلسلہ شروع ہو گیا، جو سوویت یونین کے خاتمے اورمشرقی یورپ میں بہت سی نئی ریاستوں کے وجود میں آنے کا سبب بھی بنا۔

بیس سال پہلے نو نومبر کی شام سات بجے مشرقی اور مغربی جرمن ریاستوں کے کئی ملین شہری حسب معمول اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے ٹیلی ویژن پر خبریں سن رہے تھے۔ جرمن ڈیموکریٹک ری پبلک یا GDR کہلانے والی مشرقی جرمن ریاست میں کئی مہینوں سے ایسے عوامی مظاہرے جاری تھے، جن میں عام شہری اپنے لئے سفر کی زیادہ آزادی، روزمرہ زندگی میں زیادہ جمہوری طرز عمل کے حق اور ریاستی سطح پر سوشلسٹ حکمرانوں سے کھلے پن اور جامع اصلاحات کی سیاست کے مطالبے کر رہے تھے۔

اس سے قبل اٹھارہ اکتوبر کو GDR کےسربراہ مملکت اور کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ اَیرِش ہونَیکَر اپنی ذ‌مہ داریاں ایگون کرَینس نامی رہنما کو منتقل کر چکے تھے۔ لیکن Krenz بھی عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے۔ پھر نو نومبر کے تاریخ ساز دن مشرقی جرمنی کی حکومت نے ملک میں داخلی استحکام کو یقینی بنانے کے لئے عام شہریوں سے متعلق سفری قوانین میں نرمی کا فیصلہ کیا، لیکن جو کچھ مشرقی برلن میں حکومت نے سوچا تھا، نتیجہ اُس کے بالکل برعکس نکلا۔

تب ٹیلی ویژن پر GDR کی حکومت کے ترجمان گُنٹر شابوفسکی نے اپنی روزانہ پریس کانفرنس کے دوران تقریبا سر راہے یہ ذکر کیا کہ عام شہریوں پر لاگو ہونے والے اور زیادہ آزادانہ سفری قوانین منظور کر لئے گئے ہیں۔

20 Jahre Mauerfall Flash-Galerie
دیوار برلن کے نشانات پر لگی تختیتصویر: AP

’’حکومت نے آج ایک ایسا نیا ضابطہ منظور کیا ہے، جس کے تحت GDR کے ہر شہری کے لئے یہ ممکن ہو گا کہ وہ اس ریاست کی بیرونی ملکوں کے ساتھ تمام سرحدی گزرگاہیں عبور کر سکتا ہے۔‘‘

اس اعلان پر ایک اطالوی صحافی نے شابوفسکی سے یہ پوچھا تھا کہ اس نئے قانون کا اطلاق کب سے ہو گا؟ اس پر بظاہر ملکی حکومت کے تازہ ترین فیصلوں سے لاعلم گُنٹر شابوفسکی نے جواب یہ دیا تھا کہ فوری طور پر!

چند ہی لمحوں میں یہ حیران کن خبر پوری دنیا میں پھیل گئی۔ پھر برلن شہر کے مختلف حصوں سے گزرنے والی یہ طویل دیوار اپنے قیام کے اٹھائیس برس بعد کئی جگہ سے کھول دی گئی، اور پہلی مرتبہ مشرقی جرمن شہریوں کو یہ اجازت بھی مل گئی کہ وہ کوئی وجہ بتائے بغیر سرحد عبور کر کے مغربی حصے پر مشتمل وفاقی جمہوریہ جرمنی میں داخل ہو سکیں۔

اس اعلان کے بعد مشرقی جرمنی میں فوری طور پر عوام کا ڈرامائی رد عمل دیکھنے میں آیا۔ دور دراز کے علاقوں کے شہریوں نے برلن کے مشرقی حصے کا رخ کرنا شروع کیا، اور مشرقی برلن کے شہری ہزاروں کی تعداد میں اس دیوار، خاص کر تاریخی برانڈن بُرگ گیٹ والے علاقے کا رخ کرنے لگے۔ تب سرحدی محافظین کو ابھی کوئی باقاعدہ حکم جاری نہیں کیا گیا تھا، وہ حیران تھے کہ ان کے ارد گرد کیا ہو رہا ہے، اور پھر انہوں نے عوام کے ایک بڑے سیلاب کے آگے کھڑے ہونے کے بجائے ایک طرف ہونے کا فیصلہ کر لیا۔

آدھی رات سے کچھ ہی دیر پہلے مشرقی جرمن کے اولین شہری دیوار پار کر کے یا پھلانگ کر مغربی برلن میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ جرمن باشندے بہت خوش تھے، وہ خوشی سے نعرے لگا رہے تھے، اور پھر بہت سے شہریوں نے، جس کے ہاتھ میں جو کچھ بھی آیا، اُس کی مدد سے، دیوار کو توڑنا شروع کر دیا۔

یہ وہ لمحات تھے جب ایک ہی قوم کے دو مختلف ریاستوں کے شہری، جو ایک دوسرے کے لئے بالکل اجنبی تھے، فرط جذبات سے ایک دوسرے کو گلے لگا رہے تھے۔ خود یہ منظر دیکھنے والے بہت سے جرمن اور غیر ملکی صحافیوں نے بعد ازاں لکھا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں، اُس سے پہلے، بیک وقت اتنے زیادہ افراد کو انتہائی زیادہ خوشی کی حالت میں، بچوں کی طرح روتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔

اسی رات ایک بہت پر جوش مشرقی جرمن شہری نے اپنے اور اپنے کئی ملین ہم وطن افراد کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا: ’’ہمارا بہت شاندار استقبال کیا گیا۔ یہ سب کچھ انتہائی ناقابل یقین تھا۔ کوئی بھی اس پر یقین نہیں کر سکتا کہ دیوار ختم ہو گئی ہے۔ دیوار گرا دی گئی ہے۔‘‘

رپورٹ : مقبول ملک

ادارت : عاطف بلوچ