1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دیر فوجی آپریشن ختم، بونیر میں شروع

28 اپریل 2009

پاکستانی افواج کے ترجمان نے کہا ہے کہ دیر میں جنگجووں کو شکست دینے کے بعد اب بونیر میں عسکری کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/Hg1D
پاکستانی شمالی مغربی علاقوں میں جنگجو اور فوج کے مابین لڑائی میں عام شہری متاثر ہو رہے ہیںتصویر: AP

پاکستانی افواج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے کہا کہ بونیر میں فوجی کارروائی اُس وقت تک جاری رہے گی جب تک انتہا پسندوں کا خاتمہ نہیں کر دیا جاتا۔ صوبہ سرحد کے ضلع لوئر دیر میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن منگل کے روز شام گئے تک جاری رہا ، اس تین روزہ فوجی آپریسن میں سیکورٹی فورسز نے تیمرگرہ کے سکاﺅٹ چھاﺅنی سے میدان کے مختلف علاقوں میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پرگولہ باری کی جبکہ باباجی کنڈاﺅ نامی علاقے میں جیٹ طیاروں سے بمباری کی گئی۔ ضلع بھر میں کرفیو نافذ رہا جسکی وجہ سے نقل مکانی کرنے والوں کوشدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

ضلع دیر میں سیکورٹی فورسز نے آپریشن مکمل کرنے کے بعد اب بونیر میں آپریشن شروع کیا ہے جہاں اطلاعات کے مطابق 500 کے قریب عسکریت پسند موجود ہیں اطلاعات کے مطابق یہ لوگ مقامی نوجوانوں کو تربیت حاصل کرنے پر مجبور کررہے ہیں 5 اپریل کو مقامی جرگے اور مولانا صوفی محمد نے طالبان سے علاقہ خالی کرنے کا مطالبہ کیا تھا تاہم انہوں نے علاقہ نہیں چھوڑا جس پر ان کے خلاف آپریشن شروع کردیا گیا ہے۔

غیرسرکاری اداروں کی اعدادوشمار کے مطابق متاثرہ علاقوں سے اب تک پچاس ہزار افرادسے زیادہ لوگ نقل مکانی کرچکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں تازہ جھڑپوں میں مرنے والوں کی تعداد سامنے نہیں آئی تاہم مشیر داخلہ رحمان ملک کا کہنا ہے کہ تین روزہ آپریشن کے دوران ستر عسکریت پسند مارے گئے ہیں دوسری جانب سرحد حکومت نے ایک مرتبہ پھر تحریک نفاذ شریعت کو مذاکرات کی دعوت دی ہے۔

Pakistan Anschlag in Buner an der afghanischen Grenze
ضلع دیر کے بعد ضلع بونیر میں فوجی آپریشن شروع ہو چکا ہےتصویر: AP

سرحد حکومت کے ترجمان میاں افتخارحسین کا کہنا ہے : ” جب بھی سیکیورٹی فورسز پرحملے ہوں گے جوابی کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔ یہ آپریشن نہیں ہے بلکہ ان لوگوں کے خلاف جوابی کاروائی ہے جو سیکورٹی فورسز پر حملے کرتے ہیں۔ لوگ امن کی کوششوں کو تباہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں ہم آج بھی صوفی محمد سے اس مسئلہ پرمشورے کیلئے تیار ہیں۔ نظام عدل ریگولیشن کو عملی شکل دینے میں کوئی مشکل نہیں ہے لیکن یہ ضرورت کہیں گے کہ نظام عدل کامطالبہ پورا ہونے کے بعد کسی کواسلحہ اٹھانے کاکوئی جواز نہیں بنتا جو اسلحہ اٹھائے حکومت اقدامات اٹھائے گی۔ نظام عدل میں تعاون کرنے اورغیرمسلح لوگوں کے خلاف حکومت کا پہل کرنے کاسوال ہی پیدا نہیں ہوگا “۔

مذاکرات کے لئے دعوت کا جواب دینے کی بجائے تحریک نفاذ شریعت محمد ی کے نائب امیر مولانا محمد عالم کاکہناہے : ” اگرحکومت طاقت کے زورپر مسائل حل کرسکتی تو سوات میں کب کا امن بحال ہوجاتا انہوں نے تمام صورتحال کی خرابی کی زمہ داری دارالقضاءکے قیام اورقاضیوں کی تقرری میں تاخیر کو قراردیتے ہوئے کہاہے کہ حکومت نے قاتلوں اوراغواءکاروں کی کاروائیوں کو جوازبناکر دیر میں آپریشن شروع کرکے 26اپریل کے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے اگرحکومت نے دیر میں جاری آپریشن بند نہ کیاتو صورتحال کی تمام تر زمہ داری حکومت پر عائد ہوگی “۔

لوئردیر میں آپریشن کے ردعمل میں سوات اوربونیر میں طالبان متحرک ہوچکے ہیں یوں سوات کے علاوہ اب مالاکنڈ ڈویژن میں تین محاذ کھل گئے ہیں جہاں سیکورٹی فورسز کو عسکریت پسندوں کاسامنا ہے سوات کے علاقہ سمیت دوسرے واقعات میں بحرین میں عسکریت پسندوں نے پولیس اہلکاروں پرفائرنگ کی ہے ۔ جس میں ایک اہلکار ہلاک جبکہ تین کواغواءکرلیاگیا جبکہ سیکورٹی فورسز نے مینگورہ کے قریب گیارہ مشکوک افرادکوحراست میں لیاہے سوات طالبان نے دیرمیں آپریشن بند نہ ہونے کی صورت میں مل کر اسکا مقابلہ کرنے کا اعلان کیا تھا ۔ لوئردیر میں آپریشن کے خلاف دیرکے مختلف علاقوں تیمرگرہ ، منڈا اورچکدرہ میں سیاسی جماعتوں اور دیر قومی امن جرگے کی کال پر مکمل ہڑتال رہی تمام تعلیمی ادارے اورتجارتی مراکز بند اورٹریفک معطل رہی۔ قومی امن جرگے نے حکومت سے مطالبہ کیاہے کہ آپریشن میں زیادہ تر شہری متاثر ہوئے ہیں لہذا یہ آپریشن فوری طورپر بند کرکے مذاکرات کے ذریعے مسائل کاحل نکالاجائے.

فرید اللہ خان، پشاور