’دہشت گرد گروپ سے رابطہ، مہاجر کی درخواست مسترد ہو سکتی ہے‘
31 جنوری 2017آج منگل کے روز اعلیٰ ترین یورپی عدالت نے ایک مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین کی کوئی بھی رکن ریاست ایسے کسی بھی شخص کی سیاسی پناہ کی درخواست کو مسترد کر سکتی ہے، جو کسی دہشت گرد گروپ کے ساتھ رابطے میں ہو۔ اس فیصلے میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ کہ درخواست اِس صورت میں بھی رد کی جا سکتی ہے اگر درخواست کنندہ ماضی میں کسی دہشت گرد گروپ کی کارروائیوں کا حصہ رہا ہو۔
لکسمبرگ میں واقع یورپی عدالت برائے انصاف نے یہ فیصلہ ایک مراکشی باشندے مصطفیٰ لُونانی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے تحریر کیا۔ لونانی کی سیاسی پناہ کی درخواست بیلجیم حکومت نے مسترد کر دی تھی۔
مراکشی باشندے نے اپنی اپیل میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کے لیے یہ بنیاد بنائی تھی کہ اگر اُسے واپس مراکش بیجا گیا تو سکیورٹی حکام اُسے حراست میں لے کر تشدد کا نشانہ بنا سکتے ہیں۔ لونانی کے وکیل نے یہ یھی واضح کیا کہ مراکشی حکام اُس کے موکل مصطفیٰ لونانی کو تحویل میں لینے کے بعد بنیاد پرست اور جہادی قرار دے سکتے ہیں۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اگر کوئی دہشت گردی کے نیٹ ورک کا حصہ رہتے ہوئے جہادی سرگرمیوں میں شریک رہا ہے، تو اُس کی سیاسی پناہ کی درخواست کو منظور نہیں کیا جا سکتا۔ عدالت نے کہا کہ درخواست رد کرنے کے لیے بادی النظر میں شبہ بھی کافی ہو سکتا ہے اور یہ ضروری نہیں کہ اُس نے ذاتی طور پر کوئی دہشت گردانہ فعل سرزد کیا ہو یا گروپ کی تشکیل کا حصہ رہا ہو۔
عدالت نے اس ضمن میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی سن 2014 میں منظور کی گئی قرارداد سے بھی اپنے فیصلے کو تقویت دی۔ یورپی عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ سیاسی پناہ کی سہولت کے دائرے سے باہر وہ افراد بھی آ سکتے ہیں جنہوں نے جہادی عمل کے لیے سرحدوں سے پار کارروائی کے لیے دوسرے افراد کی بھرتی کی ہو یا اُن کی منتقلی میں کوئی کردار ادا کیا ہو۔
بیلجیم کی عدالت نے لونانی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے اُسے چھ برس کی قید سزا بھی سنائی تھی۔ یورپی عدالت نے تسلیم کیا کہ مراکشی شہری سن 2002 میں اقوام متحدہ کی جانب سے بلیک لسٹ کیے جانے والے ایک دہشت گرد نیٹ ورک کی قیادت کرنے والے گروپ کا حصہ تھا۔