1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’دوست داری‘، جہادیوں کی بھرتی کی بڑی وجہ

عابد حسین25 نومبر 2015

عالمی دہشت گردی کے امور کے ماہر اسکاٹ ایٹراٹن کے مطابق جہادی سرگرمیوں میں شمولیت کا بڑا سبب دوستی ہے۔ ان کے مطابق ایسے جہادیوں کی اکثریت ہے جو اپنے دوستوں کی خاطر ’اسلامک اسٹیٹ ‘میں شامل ہوئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1HCDk
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Suna

اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے زیراہتمام ایک اجلاس بعنوان ’فارن ٹیررسٹ فائٹرز‘ یا ’غیرملکی دہشت گرد جنگجو‘ کل منگل کے روز امریکی شہر نیویارک میں منعقد ہوا۔ اِس میٹنگ میں دہشت گردی کے موضوع کے اہم ریسرچر اسکاٹ ایٹراٹن نے واضح کیا کہ مساجد میں بنیاد پرستی کی ترویج یا ذہنی تبدیلی کا امکان بہت کم دکھائی دیتا ہے۔ اسی طرح ایک اجنبی یا نامعلوم شخص بھی کسی باشعور نوجوان کو دہشت گردی یا جہاد کی جانب راغب نہیں کر سکتا۔

ایٹراٹن کے مطابق مسلمان جہادیوں نے کئی مقامات پر اپنے مسیحی دوستوں کو اسلام کے دائرے میں لا کر انہیں جہاد کے راستے پر لاکھڑا کیا اور یہ جہادی انتہائی خوفناک اور سفاکانہ انداز میں مسلح سرگرمیوں میں شریک دکھائی دیے ہیں۔ سلامتی کونسل کی میٹنگ میں امریکی ریسرچر نے واضح کیا کہ شان و شوکت اور عظمت و جلالت کے افسانوں نے نوجوانوں کو ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی طرف مائل کیا کیونکہ جہاد کے عمل میں شریک ہو کر وہ اپنے معاشروں اور خاندانوں میں ہیرو کا مقام حاصل کرنے کے اہل بن جاتے ہیں۔

IS Kämpfer Videostill
جب تک نوجوانوں کی ذہنی نشو و نما کا عمل شروع نہیں کیا جاتا تب تک ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی بربریت جاری رہے گیتصویر: picture-alliance/AP Photo

ماہر عمرانیات اسکاٹ ایٹراٹن کا خیال ہے کہ جہادی تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے اندر بظاہر جرمنی میں نازیوں کے عروج، روس میں بالشویک انقلاب اور فرانس میں پیدا ہونے والے انقلاب جیسی انقلابی کشش دکھائی دیتی ہے۔ ایٹراٹن کے مطابق سنی انتہا پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ اور بقیہ ملکوں میں رونما ہونے والے انقلابوں کے مقاصد میں واضح فرق ہے۔ انہوں نے دوسری عالمی جنگ کے بعد ایک انقلاب کے جواب میں رونما ہونے والی ثقافتی تحربکوں میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کو نمایاں قرار دیا ہے اور اِسی باعث اِس میں ہزاروں رضاکار شامل ہوئے ہیں۔

امریکی محقق نے ’اسلامک اسٹیٹ‘ اور القاعدہ سے وابستگی رکھنے والے النصرہ فرنٹ کے گرفتار ہونے والے فائٹرز سے ملاقاتوں کے علاوہ ان کے انٹرویوز بھی کیے ہیں۔ اِن انٹرویوز کے بعد وہ اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی لیڈرشپ کو یہ احساس ہے کہ حکومتوں کے خلاف لڑائی میں نوجوان اُن کا بہتر سرمایہ اور ہتھیار ہو سکتے ہیں اور اِسی وجہ سے وہ نوجوانوں میں بہتر مستقبل اور زندگی کے نظریات کی آبیاری کرتے ہیں۔ اِس مقصد کے لیے جہادی تنظیمیں سوشل میڈیا کا مؤثر انداز میں استعمال کر رہی ہیں۔ ایٹراٹن نے میٹنگ میں واضح کیا کہ جب تک نوجوانوں کی ذہنی نشو و نما کا عمل شروع نہیں کیا جاتا تب تک ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی بربریت جاری رہے گی اور اِس عمل کے بغیر جہادی حملوں کو روکنا بھی مشکل ہو گا۔

اسکاٹ ایٹراٹن عالمی شہرت کی حامل اکسفورڈ یونیورسٹی میں قائم ایک تحقیقی تھنک ٹینک ’ ریزولیوشن آف انٹریکٹ ایبل کونفلکٹ‘ کے شریک بانیوں میں سے ہیں۔