دنیا کی سب سے طاقتور ٹیلی اسکوپ کی تنصیب کے لیے افریقہ اور آسٹریلیا مدمقابل
15 دسمبر 2011ایس کے اے یا Square Kilometre Array ٹیلی اسکوپ منصوبے کے لیے مختلف ملکوں اور تحقیقی اداروں نے رقم فراہم کی ہے اور توقع ہے کہ یہ 2023ء تک مکمل ہو جائے گا۔ اس ٹیلی اسکوپ کی لہریں بھیجنے اور وصول کرنے والے antennas اور receptors تین ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلے ہوں گے اور یہ دنیا میں سائنسی تعمیر کا سب سے بڑا منصوبہ ہو گا۔
اس منصوبے کے لیے ایسی جگہ کی ضرورت ہے جو الگ تھلگ واقع ہو اور وہاں کسی اور قسم کی برقی یا دیگر لہروں کی دخل اندازی نہ ہو۔ اسی وجہ سے جنوبی افریقہ کے دارالحکومت کیپ ٹاؤن سے 450 کلومیٹر شمال مشرق میں واقع کارنارون نامی قصبے کو آزمائشی منصوبے کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔
جنوبی افریقہ میں پہلے ہی Southern African Large Telescope نصب ہے جو زمین کے جنوبی نصف کرے میں سب سے بڑی ہے۔ جنوبی افریقہ اپنے بر اعظم کے آٹھ دیگر ملکوں کے ساتھ اس منصوبے کی بولی میں شریک ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ کم تعمیراتی اخراجات، ریڈیو لہروں کے لیے نسبتا پرسکون جگہ اور رقم کا بہترین متبادل فراہم کر سکتا ہے۔ جنوبی افریقہ کا ساتھ دینے والے باقی آٹھ ملکوں میں نمیبیا، بوٹسوانا، موزمبیق، گھانا، ماریشیئس، مڈغاسکر، کینیا اور زیمبیا شامل ہیں۔ منصوبہ مل جانے کی صورت میں ٹیلی اسکوپ کے کل تین ہزار antennas میں سے نصف جنوبی افریقہ کے شہر کارنارون میں جبکہ باقی ان آٹھ ملکوں میں نصب کیے جائیں گے۔
جنوبی افریقہ نے ریڈیو فلکیات پروگرام کے آئندہ مرحلے کے لیے ایک بلین رینڈ یا 120 ملین ڈالر کا بجٹ مختص کیا ہے۔
دوسری جانب آسٹریلیا بھی اس منصوبے کے حصول کے لیے کافی پر امید ہے۔ اس مقصد کے لیے مغربی آسٹریلیا کے انتہائی کم آبادی والے خطے مڈ ویسٹ میں ریڈیو فلکیات کے لیے ایک انتہائی سازگار مقام تعمیر کیا جا رہا ہے۔ نیوزی لینڈ کے ہمراہ اپنی بولی میں آسٹریلیا ریڈیو لہروں کے لیے انتہائی خاموش مقام اور بہترین موسمی حالات کے علاوہ کاروبار کرنے میں زیادہ سہولت اور جنوبی افریقہ کی نسبت بہتر سکیورٹی جیسی سہولیات کی پیشکش کر رہا ہے۔
کارنارون میں پہلے ہی آزمائشی بنیادوں پر سات antennas نصب کیے جا چکے ہیں۔ ایس کے اے اور جنوبی افریقہ میں پہلے سے موجود طاقتور ٹیلی اسکوپ کے ذریعے دیگر سیاروں پر موجود مخلوق کی تلاش اور کائنات کی تخلیق کے راز جاننے کی کوشش کی جائے گی۔ اس کے علاوہ یہ کائنات میں موجود سیاہ توانائی، سیاہ شگافوں اور ریڈیائی امواج کے منبع کا بھی سراغ لگانے کی کوشش کرے گی۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: عدنان اسحاق