دنیا کو اس وقت ایک منصفانہ اور موثر نظام کی ضرورت ہے:صالحی
28 اگست 2012اس میں اس تحریک کے رکن ممالک کے ریاستی اور حکومتی سربراہان شرکت کریں گے۔ اطلاعات کے مطابق بہت سے ممالک کے وزرائے خارجہ آج 28 اگست سے ہی تہران پہنچنا شروع ہو گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون بھی اس سربراہ کانفرنس کے مہمانوں میں شامل ہیں۔ تاہم جیسا کہ پہلے ہی اس امر کی وضاحت کی جا چکی ہے، بان کی مون ناتان میں قائم ایران کے ایٹمی بجلی گھر کا دورہ نہیں کریں گے۔
ایران ناوابستہ ممالک کے اس سولہویں اجلاس سے کچھ امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہے۔ تہران حکومت چاہتی ہے کہ ان ممالک کے مندوبین مغرب کی طرف سے اُس پر لگائی گئی پابندیوں کے خلاف جنگ میں اس کا ساتھ دیں گے۔ اس ضمن میں ایرانی وزیر خارجہ علی اکبر صالحی پہلے ہی کہ چکے ہیں کہ ناوابستہ تحریک میں شامل ریاستوں کو چاہیے کہ وہ اس تحریک میں شامل ملکوں پر مغربی ممالک کی طرف سے لگی اقتصادی، مالیاتی غرضیکہ یک طرفہ پابندیوں کی مخالفت کریں۔ دراصل صالحی کا اشارہ اس وقت ایران پر یورپی یونین کی طرف آئل ایمبارگو اور متعدد مغربی ریاستوں کی جانب سے تہران کے خلاف لگائی جانے والی سخت ترین اقتصادی پابندیوں کی طرف ہے۔ ناوابستہ تحریک کے ممالک کی اس کانفرنس کے انعقاد سے ایران کو ایک موقع مل گیا ہے اپنے سفارتی تعلقات کو فروغ دینے کا۔
اس اجلاس میں ایران کے متنازعہ ایٹمی پروگرام اور شام کے بحران جیسے موضوعات کو غیر معموملی اہمیت حاصل ہوگی۔ ایرانی سرکاری ذرائع کے مطابق شام نے اس اجلاس میں شرکت کے لیے اپنے دو اعلیٰ سرکاری عہدیدار وزیر اعظم وائل الحلقی اور وزیر خارجہ ولیدالمعلم کو روانہ کر رہا ہے۔ صالحی کے بقول،’ تمام دنیا کو اس وقت ایک منصفانہ، شفاف اور موثر نظام کی ضرورت ہے، تب ہی ہم عالمی اقتصادی بحران، عالمی سلامتی کو لاحق خطرات، ماحولیات کو پہنجنے والے نقصانات، تغیر ماحول، تارکین وطن اور موذی بیماریوں جیسے بڑے چیلنجز سے نمٹ سکیں گے‘۔
اسلامی جمہوریہ ایران خود کو شفاف اور منصفانہ ممالک کی صف میں سب سے آگے سمجھتی ہے۔ ناوابستہ تحریک اقوام متحدہ کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا عالمی ادارہ ہے۔ اس کے ممبر ممالک کم و بیش دنیا کی آدھی آبادی کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ایران دنیا میں ایک مضبوط اور قائدانہ صلاحیت سے بھرپور ملک ہونے کا ثبوت پیش کرنا چاہتا ہے۔ تہران کے بلند عزائم کے بارے میں ایرانی پارلیمان کے ایک رکن رضا طلائی نیک کہتے ہیں،’ ناوابستہ تحریک سے منسلک ممالک کے اس اجلاس کا مرکزی موضوع دنیا کی مشترکہ قیادت ہونا چاہیے۔ اس تحریک کو چاہیے کہ اس مقصد کے لیے درکار تمام تر وسائل مہیا کرے اور اس جانب بڑھنے کی کوشش کرے‘۔
اسرائیل اور امریکا کی طرف سے سخت تنقید اور تشویش کے اظہار کے باوجود جمعرات سے تہران میں شروع ہونے والے اس اجلاس میں اقرام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون حصہ لیں گے۔ 30 سے زائد رکن ممالک کے ریاستی اور حکومتی سربراہان اس اجلاس میں شرکت کریں گے جن کے سامنے بان کی مون تہران کے متنازعہ جوہری پروگرام اور شام کے بحران پر عالمی برادری کی تشویش کا کھل کر اظہار کریں گے۔
Baumgarten/R/Hinrichs.B/km/ah