1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہر دس منٹ بعد ’شہريت سے محروم‘ ایک بچے کی پيدائش

عاصم سليم3 نومبر 2015

اقوام متحدہ کی ايک تازہ رپورٹ ميں انکشاف کيا گيا ہے کہ عالمی سطح پر ہر دس منٹ بعد ايک ايسے بچے کی پيدائش ہوتی ہے، جو شہريت سے محروم يا بے وطنی کا شکار ہوتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1GyiX
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/R. Stefanos

اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين (UNHCR) کی منگل تين نومبر کو جاری کردہ ايک تازہ رپورٹ میں بتايا گيا ہے کہ شامی تنازعے کے نتيجے ميں عالمی سطح پر پناہ گزينوں کا بحران مزید شدید ہوا اور اسی سبب شہريت سے محروم بچوں کا مسئلہ بھی مزيد بگڑ رہا ہے۔ کميشن کی اس رپورٹ ميں بچوں پر بے وطنی کے طويل المدتی اثرات بيان کيے گئے ہيں۔ ايسے بچوں کو طبی سہوليات، تعليم اور مستقبل ميں ملازمت کے مواقع ميں دشوراياں پيش آتی ہيں۔

شام ميں بچوں کے ليے شہريت حاصل کرنا صرف اور صرف باپ ہی کے ذريعے ممکن ہے تاہم وہاں گزشتہ چار برس سے جاری خانہ جنگی کے نتيجے ميں قريب چار ملين افراد نے اپنا ملک چھوڑ ديا ہے جبکہ پچيس فيصد شامی خاندان جنگ کے سبب مرد سربراہ سے محروم ہو چکے ہيں۔ حاملہ حالت ميں شام چھوڑنے والی خواتین نے اقوام متحدہ کے نمائندوں سے بات چيت کرتے ہوئے بتايا کہ ان کے بچوں کو پيدائش کا سرٹيفيکيٹ نہ ملنے کی صورت ميں ايک نہ ايک دن اپنے گھر بار لوٹنے کے ان کے خواب چکنا چور ہو سکتے ہيں۔ شامی خانہ جنگی نے لاکھوں شامی باشندوں کو يورپ ميں پناہ لينے پر مجبور کر ديا ہے۔ ان ميں ايسی عورتيں بھی شامل ہيں، جنہوں نے راستے ميں ہی بچوں کو جنم ديا۔

اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين کے سربراہ انٹونيو گُوتيريس
اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين کے سربراہ انٹونيو گُوتيريستصویر: Reuters/A. Konstantinidis

اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين کے سربراہ انٹونيو گُوتيريس، بدھ کو نيو يارک ميں باقاعدہ طور پر یہ رپورٹ پيش کرنے والے ہيں۔ اس رپورٹ کے مطابق بے وطن بچوں کا مسئلہ پناہ گزين اور ہجرت کے پس منظر والے گھرانوں ميں زيادہ ہے۔ UNHCR کے مطابق دنيا بھر ميں جن بيس ممالک ميں سب سے زيادہ شہريت سے محروم افراد موجود ہيں، وہاں ہر سال قريب 70,000 ايسے بچوں کی پيدائش ہوتی ہے، جو شہريت سے محروم ہوتے ہيں۔ ان اعداد و شمار کے تحت عالمی سطح پر ہر دس منٹ ميں ايک ايسا بچہ پيدا ہوتا ہے، جس کی پيدائش کے وقت کوئی شہريت نہيں ہوتی۔

انٹونيو گُوتيريس کے بقول بے وطنی ان بچوں کی زندگيوں ميں ايسے مسائل پيدا کر سکتی ہے، جو نہ صرف بچپن میں ہی ان کی نينديں حرام کر ديتے ہيں بلکہ انہیں بالغ زندگی ميں بھی کئی مرتبہ دکھ، امتيازی سلوک اور الجھن کا سامنا رہتا ہے۔ گُوتيريس نے کہا، ’’کچھ ملين بچے شہريت سے ملنے والے اپنائيت کے احساس اور تحفظ کے بغير ہی اپنے بچپن گزرتا ہوا ديکھ رہے ہيں۔‘‘

شامی خانہ جنگی کے نتيجے ميں قريب چار ملين افراد نے اپنا ملک چھوڑ ديا ہے
شامی خانہ جنگی کے نتيجے ميں قريب چار ملين افراد نے اپنا ملک چھوڑ ديا ہےتصویر: Getty Images/AFP/H. Ammar

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر تيس ممالک ميں صحت سے متعلق بنيادی سہوليات کے حصول کے ليے بھی شہريت سے متعلق دستاويز درکار ہوتی ہے جبکہ بيس ملکوں ميں شہريت سے محروم بچوں کو حفاظتی ٹيکے تک نہيں لگائے جا سکتے۔

بے وطن بچوں کو درپيش مسائل کے حل کے ليے اقوام متحدہ کے اس ذيلی ادارے نے کئی تجاويز پيش کی ہيں، جن ميں ايسے امتيازی قوانين کا خاتمہ شامل ہے جن کی وجہ سے عورتيں اپنی شہريت کی بنياد پر اپنے بچوں کو شہريت نہيں دلا سکتيں۔ UNHCR نے مطالبہ کيا ہے کہ جن ملکوں ميں بچوں کی پيدائش ہوتی ہے، ان کو وہيں کی شہريت دے دينی چاہيے۔ رپورٹ ميں شہريت سے محروميت کی بنيادی وجہ امتيازی قوانين بتائی گئی ہے، جس ميں ايسے بيس ممالک کا ذکر ہے، جہاں مذہب، نسل اور قوميت کی بنياد پر شہريت مسترد کی جا سکتی ہے۔

يہ امر اہم ہے کہ قبل ازيں UNHCR نے 2024ء تک دنيا سے بے وطنی کا مسئلہ ختم کرنے کا ہدف مقرر کيا تھا۔