1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دنيا مہاجرين کے بحران سے نمٹنے ميں ناکام ثابت ہوئی ہے

عاصم سليم15 مارچ 2016

ہالی وُڈ کی مشہور و معروف اداکارہ اور اقوام متحدہ کی ايجنسی برائے مہاجرين کی خصوصی مندوب انجيلينا جولی نے کہا ہے کہ بين الاقوامی برادری کو مہاجرين کے بحران کی بنيادی وجوہات کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہيے۔

https://p.dw.com/p/1IDVU
تصویر: Jemal Countess/Getty Images

ہالی وڈ کی فنکار انجيلينا جولی نے کہا، ’’ہم سفارت کاری اور سياسی حل کے بجائے صرف امداد سے دنيا کے مسائل کا حل تلاش نہيں کر سکتے۔‘‘ انہوں نے يہ بيان لبنان ميں وادی بقاع ميں منعقدہ ايک پريس کانفرنس ميں منگل کے روز کہی۔ جولی کے بقول دنيا نے مہاجرين کو مايوس کيا ہے۔

لبنان ميں ايک ملين سے زائد شامی تارکين وطن پناہ ليے ہوئے ہيں۔ مارچ سن 2011 ميں شامی خانہ جنگی کے آغاز کے بعد سے وادی بقاع ميں ہزارہا شامی مہاجرين رہائش پذير ہيں۔

لبنان ميں پندرہ مارچ کو بات چيت کرتے ہوئے جولی نے کہا کہ وہ اميد کر رہی تھيں کہ وہ شامی جنگ سے متاثرہ افراد کی مدد کرتے ہوئے انہيں گھروں تک واپس پہنچائيں تاہم ان کے بقول يہ ايک شرمناک اور افسوسناک بات ہے کہ ابھی وہ مقام بہت دور ہے۔ جولی نے يہ بات شامی صدر بشار الاسد کے خلاف شروع ہونے والی حکومت مخالف تحريک کے پانچ برس مکمل ہونے کے موقع پر کہی۔

انجيلينا جولی ميانمار ميں
انجيلينا جولی ميانمار ميںتصویر: Getty Images/T. Stoddart

اقوام متحدہ کے مطابق اس وقت دنيا ميں بے گھر يا جنگوں سے متاثرہ افراد کی تعداد، دوسری عالمی جنگ سے متاثرہ افراد کی تعداد سے بھی زيادہ ہے۔ شام ميں دمشق حکومت، باغيوں اور غير ملکی جہاديوں کی جنگ کو عالمی تنظيم ’اس نسل کا سب سے بڑا انسانی الميہ‘ قرار ديتی ہے۔ جنگ سے قبل شام کی کُل آبادی لگ بھگ تيئس ملين تھی جس کی نصف سے زيادہ تعداد اب بے گھر ہو چکی ہے۔ ان ميں سے تقريباً پانچ ملين شامی باشندوں نے لبنان، ترکی، عراق اور اردن جيسے پڑوسی ملکوں ميں پناہ لی ہوئی ہے۔

انجيلينا جولی نے اس بارے ميں بات کرت ہوئے کہا کہ يہ نہيں بھول جانا چاہيے کہ تارکين وطن کے بحران کی تمام تر توجہ اس وقت يورپ ہی پر مرکوز ہے، جبکہ سب سے زيادہ دباؤ اب بھی مشرق وسطیٰ اور شمالی افر‌يقہ پر پڑ رہا ہے۔ اداکارہ نے عالمی برادری پر زور ديا کہ وہ مہاجرين کی مدد کے معاملے ميں اپنی بين الاقوامی ذمہ دارياں پوری کريں۔ انہوں نے کہا، ’’قوانين اور بين الاقوامی معاہدے اسی ليے ہوتے ہيں کہ جس وقت ان سے بھاگنے کے ليے دباؤ ہو، تو اس وقت بھی ان پر عملدرآمد لازمی ہو۔‘‘