1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دلائی لامہ کے جانشین نے عہدہ سنبھال لیا

8 اگست 2011

تینتالیس سالہ ہارورڈ اسکالر لوبسانگ سانگے کا کہنا کہ وہ تبت کو چینی تسلط سے آزاد کرائیں گے۔

https://p.dw.com/p/12CpL
لوبسانگ سانگے دلائی لامہ کی اشیرباد لیتے ہوئےتصویر: dapd

پیر کے روز لوبسانگ سانگے نے دلائی لامہ کے جاں نشین کے طور پر جلا وطن تبتیوں کی حکومت کے سربراہ کا عہدہ باضابطہ طور پر سنبھال لیا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے تبت کو چین کی نوآبادی قرار دیتے ہوئے اسے چین کے تسلط سے آزاد کرانے کے عزم کا اظہار کیا۔

بھارتی پہاڑی علاقے دھرمشالہ میں اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد لوبسانگ سانگے نے کہا کہ تبت کی خودمختاری کی تحریک نہ صرف یہ کہ قائم رہے گی بلکہ وہ وقت کے ساتھ مزید مضبوط ہوگی۔ تبتیوں کے روحانی رہنما دلائی لامہ نے اس تقریب کی صدارت کی۔ دلائی لامہ کچھ عرصے قبل عملی سیاست سے دستبردار ہو گئے تھے۔

Flash-Galerie Lobsang Sengey
لوبسانگ سانگے ہارورڈ کے فارغ التحصیل ہیںتصویر: AP

لوبسانگ سانگے جلا وطن تبتی حکومت کے اپریل میں ہونے والے انتخابات میں فتحیاب ہونے کے بعد وزیر اعظم بنے تھے۔ ہاورڈ یونیورسٹی کے گریجویٹ، تینتالیس سالہ سانگے کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہونے کو تبت کی سیاست میں ایک نیا سنگ میل قرار دیا جا رہا ہے۔ تبت کی سیاست میں اب تک مذہبی شخصیات کو اہمیت حاصل رہی ہے۔ سانگے ایک جدید شخصیت ہیں، جو کہ ایک اسکالر بھی ہیں۔

پیر کے روز اپنی تقریر میں سانگے نے ان خدشات کی نفی کی کہ دلائی لامہ کی بڑھتی عمر اور ان کے انتقال کی صورت میں تبتیوں کی تحریک کمزور پڑ سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی تقرری چین کے کٹر حکمرانوں کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ تبتیوں کی تحریک بھرپور طریقے سے جاری ہے۔ انہوں نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ تبتیوں کی جدوجہد ان کی آزادی تک جاری رہے گی۔ ان کا کہنا تھا، ’تبت میں کوئی سوشل ازم نہیں ہے۔ تبت چین کی نوآبادی ہے۔ چین کا تبت پر تسلط ناجائز ہے‘۔

اس موقع پر لوبسانگ سانگے نے دلائی لامہ کے عدم تشدد کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے تبت کی خود مختاری حاصل کرنے کے عزم کا بھی اعادہ کیا۔

خیال رہے کہ چین تبت کو اپنا حصہ تصور کرتا ہے اور وہ جلا وطن تبتیوں کی حکومت کو بھی تسلیم نہیں کرتا۔

رپورٹ: شامل شمس⁄ خبر رساں ادارے

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں