1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

در بہ در بھٹکنے والا ایک مہاجر آخر ڈاکٹر بن گیا

عاطف توقیر روئٹرز
5 اگست 2017

طویل عرصے، چار مختلف ممالک، چار مختلف میڈیکل کالجز اور 21 مرتبہ گھر تبدیل کرنے والا ایک مہاجر بلآخر ڈاکٹر بننے میں کامیاب ہو گیا۔

https://p.dw.com/p/2hkGK
Berlin - Pulse of Europe
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schreiber

شامی شہر حلب میں ایک میڈیکل کالج میں پڑھنے والا تیرج بریمو ڈاکٹر بننے سے صرف دس ماہ کی دوری پر تھا، جب یہ شہر خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ گیا۔ اسی خانہ جنگی کی وجہ سے بریمو کو سن 2012ء میں گھر بار چھوڑ کر راہ فرار اختیار کرنا پڑی اور وہ سن 2013ء میں برطانیہ پہنچا۔

گزشتہ ہفتے اس شامی مہاجر نے یونیورسٹی آف لندن سے میڈیکل کی ڈگری حاصل کر لی ہے، تاہم اس سے قبل اسے مختلف میڈیکل کالجوں کی جانب سے داخلے پر انکار کا سامنا رہا۔ اب بریمو ایک ڈاکٹر کے طور پر اپنے کریئر کا شمالی انگلینڈ میں نیشنل ہیلتھ سروسز سے آغاز کر رہا ہے۔

بریمو نے اپنی اس کامیابی کا ذکر اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں کیا، جو وائرل ہو گئی اور کئی ہزار مرتبہ شیئر کی گئی۔

تھومس روئٹرز فاؤنڈیشن سے خصوصی بات چیت میں اس مہاجر ڈاکٹر کا کہنا تھا، ’’جنگ آپ سے سب کچھ چھین سکتی ہے، مگر آپ کا جذبہ اور محبت نہیں۔ میں اپنے خواب کا تعاقب نہیں چھوڑ سکتا تھا، کیوں کہ یہی مجھے میری ذات کا پتا دیتے ہیں۔ میں زندگی کی عدم مساوات کو مسترد کرتا ہوں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ایک مہاجر کے طور پر وہ سمجھ سکتے ہیں کہ ہمدردی کی اصل قدر کیا ہے اور ایک ڈاکٹر کے لیے یہ کسی اثاثے سے کم نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک ڈاکٹر کے طور پر وہ انسانیت کی خدمت کریں گے۔

اس مہاجر نے بتایا کہ وہ شام اور برطانیہ دونوں سے جذباتی لگاؤ رکھتا ہے، شام کے حالات ہر روز اس کے دل ٹوٹنے کا سبب بتنے ہیں۔ اس کے مطابق شام کے بعد برطانیہ وہ ملک ہے، جہاں اسے محبت ملی اور جس نے اسے خوش آمدید کہا۔