1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

درجنوں دینی مدارس بند: پاکستان میں بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن

مصنف: عبدالغنی کاکڑ ، کوئٹہ1 فروری 2016

آج بروز پیر صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے مختلف مدارس پر بھی چھاپے مارے گئے اور مشکوک سرگرمیوں میں ملوث تین اہم دینی مدارس کو سیل کیا گیا۔

https://p.dw.com/p/1HmxH
تصویر: DW/A. Ghani Kakar

پاکستانی شورش زدہ صوبہ بلوچستان سمیت سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں پولیس اوردیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے نیشنل ایکشن پلان کے تحت مشکوک سرگرمیوں میں ملوث دینی مدارس کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن شروع کردیا ہے ۔

اس کارروائی کے دوران اب تک مجموعی طور پر 185 دینی مدارس کو انتہا پسندی کو فروغ دینے اورمشکوک سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں میں سیل کیا گیا ہے۔

آج بروز پیر صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے مختلف مدارس پر بھی چھاپے مارے گئے اور مشکوک سرگرمیوں میں ملوث تین اہم دینی مدارس کو سیل کیا گیا۔ کارروائی کے دوران پانچ اہم مذہبی رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا جن پر انتہا پسندی کو فروغ دینے کا الزام لگایا گیا ہے۔

ایس ایس پی آپریشن کوئٹہ وحید الرحمن خٹک کے بقول دینی مدارس پر چھاپوں کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ کسی مدرسے کو انتہا پسندی کے فروغ کے لیے استعمال نہ کیا جا سکے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ،"یہ تمام کارروائی نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہے، ہمیں اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ انتہا پسند دینی مدارس کی آڑ میں شدت پسندی کو فروغ دینے کے لیے مہم چلا رہے ہیں اور اس ضمن میں کئی مدارس کو استعمال کیا گیا ہے۔ ان اطلاعات کی روشنی میں تحقیقات کے بعد سرچ آپریشن شروع کیا گیا۔ کوئٹہ میں اب تک جو بھی مدرسے سیل کیے گئے ہیں انہیں ہر حوالے سے مشکوک پایا گیا تھا۔"

Pakistan Quetta Protest gegen Razzia bei Religionsgruppen
مدرسوں کی بندش کے خلاف احتجاجتصویر: DW/A. Ghani Kakar

ایس ایس پی آپریشن نے بتایا کہ کارروائی کے دوران گرفتار ہونے والے افراد میں سنی مسلک سے تعلق رکھنے اہم مذہبی رہنما شامل ہیں۔

انہوں نے کہا، مشکوک مدارس کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کے دوران آج کوئٹہ کے مشرقی بائی پاس پر واقع مدرسہ حسینیہ، مدرسہ تعلیم القران اورمدرسہ ابو بکر کو سیل کیا گیا ہے۔ جو لوگ چھاپوں کے دوران گرفتار کیے گئے ہیں ان میں سنی مکتبہ فکر کی سیاسی جماعت اہلسنت والجماعت بلوچستان کے امیر مولا نا رمضان مینگل، قاری سیف الرحمان، مولانا صورت شاہ، مولوی حبیب اللہ اورقاری عبدالولی فاروقی شامل ہیں ۔"

وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی نے بتایا ہے کہ دہشت گردی کی حالیہ لہر سے نمٹنے کے لیے جامع حکمت عملی وضع کی گئی ہے اور ایپیکس کمیٹی کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ انتہا پسندی کی روک تھام کے لیے دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ دینی مدارس کی مکمل چھان بین بھی کی جائے گی۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ، "دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ٹھوس بنیادوں پر فیصلے کیے گئے ہیں۔ یہ ہماری اولین ترجیح ہے کہ ملک کے دیگر حصوں کی طرح بلوچستان میں بھی شدت پسندوں اور انتہا پسندوں کے مذموم مقاصد کو ناکام بنایا جائے۔ جو بھی دینی مدارس انتہا پسندی کے فروغ میں ملوث پائے جائیں گے ان کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی جائے گی۔"

سرفراز بگٹی نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت کیے گئے اقدامات سے بلوچستان میں دہشت گردوں کا نیٹ ورک کافی حد تک تباہ ہو چکا ہے۔ ان کے بقول ،"مذہبی انتہا پسندی اور شدت پسندی میں ملوث دہشت گردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کی جا رہی ہے۔ سکیورٹی ایجنسیاں نیشنل ایکشن پلان کے تحت تمام مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کے زیر انتظام چلنے والے دینی مدارس کی چھان بین کر رہی ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ اس خطے سے انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے ہم ممکنہ اقدامات کریں۔"

دفاعی امور کے سینیئر تجزیہ کار پروفیسر حسن عسکری رضوی کے بقول، پاکستان میں انتہا پسندی کے فروغ میں ملوث دینی مدارس کے خلاف جاری کارروائی کے اہداف اس وقت تک حاصل نہیں کیے جا سکتے جب تک حکومت دینی مدارس کو ریگولیٹ نہیں کرتی ۔

ڈی ڈبلیو سےگفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا،"نیشنل ایکش پلان کے کئی نکات پر اب تک سنجیدگی سے عمل درآمد نہیں کیا گیا ہے۔ حکومت کو مستقل مزاجی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ اکثر اوقات نیپ کے تحت کارروائیاں شروع تو کر دی جاتی ہیں لیکن ان میں تسلسل برقرار نہیں رہتا۔ دینی مدارس کے خلاف ماضی میں بھی کئی کارروائیاں ہو چکی ہیں لیکن اب تک ان کارروائیوں کے کوئی نتائج سامنے نہیں آ سکے ہیں۔"

پروفیسر حسن عسکری رضوی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے تمام عصری تعلیمی اداروں کے اعداد و شمار اور فنڈنگ کی تفصیلات حکومت کے پاس موجود ہیں لیکن دینی مدارس کے حوالے سے حکومت کے پاس کوئی معلومات نہیں ہیں۔

Madrassa in Khyber Pakhtoonkhwa
خیبر پختونخواہ کا ایک مدرسہتصویر: DW/F. Khan

انہوں نے کہا ،"چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی پر ہونے والے حملے اور ملک بھر میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کے بعد حکومت نے دینی مدارس کے خلاف یہ کریک ڈاؤن شروع کیا ہے۔ یہ عمل پہلے کیوں شروع نہیں کیا گیا؟ ملک بھر میں قائم کئی دینی مدارس کو باہر سے فنڈنگ مل رہی ہے، یہ سلسلہ ابھی کا نہیں بلکہ 1980ء سے جاری ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت تمام دینی مدارس کو ضابطے کا پابند بنائے تاکہ ان کا مکمل ڈیٹا حکومت کے پاس موجود ہو۔"

سکیورٹی امور کے تجزیہ کار ندیم خان کے بقول دینی مدارس کے خلاف شروع کیے گئے کریک ڈان میں اگر کسی بھی طور پر مذہبی تعصب کا مظآہرہ کیا گیا تو اس سے حالات میں مزید خرابی بھی پیدا ہو سکتی ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ،"دیکھیے یہ بہت ضروری ہے کہ حکومت دینی مدارس کے خلاف کارروائی سے قبل زمینی حقائق پر بھی سنجیدگی سے توجہ دے۔ میرے خیال میں اس کریک ڈاؤن سے یہ تاثر نہیں ملنا چاہیے کہ دینی مدارس کے خلاف کارروائی اجتماعی نہیں بلکہ ایک مخصوص مسلک کے مدارس کے خلاف ہے۔"

ندیم خان کا کہنا تھا کہ دینی مدارس کے خلاف یکطرفہ کارروائیوں سے انتہا پسندوں کے موقف کو تقویت ملے گی۔ انہوں نے کہا "اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ملک کے مختلف حصوں میں غیر ملکی عناصر بھی دینی مدارس چلا رہے ہیں۔ ان مدارس میں تعلیم کے ساتھ ساتھ طلباء و طالبات کی کس طرح ذہنی تربیت کی جاتی ہے یہ معلوم کرنا بہت ضروری ہے۔ حکومت کو ضابطے کے مطابق تمام دینی مدارس کو رجسٹر کرنا ہو گا تاکہ دینی مدارس ممنوعہ سرگرمیوں میں ملوث نہ ہوں۔"

یاد رہے کہ مشکوک سرگرمیوں میں ملوث دینی مدارس کے خلاف جاری حالیہ کریک ڈاؤن سے قبل سکیورٹی ادروں کی رپورٹوں کی روشنی میں وفاقی وزرات داخلہ کی ہدایت پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ایک سو چھبیس مشتبہ اکاؤنٹس سے ایک بلین روپے کی رقم بھی ضبط کی تھی۔

قبل ازیں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردوں کی فنڈنگ روکنے کے لیے ہنڈٰی کا غیر قانونی کاروبار کرنے والے افراد کے خلاف بھی کارروائی کی تھی۔ اس کارروائی کے دوران مجموعی طور پر 251 ملین روپے کی رقم برآمد کی گئی تھی۔


اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید