1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’داعش کے خلاف سعودی فوجی اتحاد زمینی دستے بھی بھیج سکتا ہے‘

امتیاز احمد15 دسمبر 2015

سعودی وزیر خارجہ کے مطابق داعش کے خلاف لڑائی میں زمینی دستوں کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ دریں اثناء جامعتہ الازہر نے تمام مسلم ملکوں سے سعودی عرب کا ساتھ دینے کی اپیل کی ہے۔

https://p.dw.com/p/1HNqd
Saudi-Arabien Golf-Kooperationsrat in Riad
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Mohammed

سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل بن احمد الجبير کے مطابق دہشت گردی کے خلاف بنائے جانے والے چونتیس ممالک پر مشتمل نئے فوجی اتحاد کا مقصد معلومات کا تبادلہ کرنا ہے اور اگر ضروری ہوا تو فورسز کو داعش کے خلاف لڑائی کے لیے ہتھیار اور تربیت بھی فراہم کی جائے گی۔

سعودی وزیر خارجہ کے اس بیان سے پہلے سعودی عرب نے ایک نیا فوجی اتحاد تشکیل دینے کا اعلان کیا تھا اور بتایا تھا کہ اس اتحاد کا مقصد دہشت گردی سے نمٹنا ہوگا۔ ایک ایسا اعلان جس کو امریکا نے بھی خوش آمدید کہا ہے۔ یاد رہے کہ اس اتحاد میں خطے کے اہم شیعہ ملک ایران کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔

جب سعودی عرب کے وزیر خارجہ سے یہ سوال کیا گیا کہ آیا یہ اتحاد داعش سے لڑائی کے لیے زمینی فوجی بھی بھیج سکتا ہے تو ان کا جواب دیتے ہوئے کہنا تھا، ’’کچھ بھی خارج از امکاں نہیں ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’اس کا انحصار درخواست دہندہ پر ہوگا، اس کا انحصار ضرورت پر ہوگا، اس کا انحصار ضروری حمایت فراہم کرنے والے ممالک کی رضامندی پر ہوگا۔‘‘

دریں اثناء سنی اسلام کی تعلیمات کے لیے دنیا کی مشہور درس گاہ جامعة الازہر نے تمام مسلمان ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ ’دہشت گردی‘ کے خاتمے لیے سعودی عرب کی قیادت میں بننے والے نئے فوجی اتحاد کا ساتھ دیں۔ جامعة الازہر کی طرف سے اس نئے اتحاد کی تشکیل کا خیرمقدم کیا گیا ہے اور امید ظاہر کی گئی ہے کہ اس طرح ’’دہشت گردی کی برائی‘‘ کا خاتمہ کیا جا سکے گا۔

قبل ازیں سعودی عرب کے نائب ولی عہد اور وزیر دفاع محمد بن سلمان نے اس عسکری اتحاد کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس عسکری اتحاد میں دوسرے ملکوں اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ رابطہ اور معاونت کے ذریعے ایسا طریقہ کار وضع کیا جائے گا، جو انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں کو تقویت دے گا۔ شہزادہ محمد کے مطابق اِس اتحاد کی عسکری کارروائیاں صرف مسلم دنیا تک محدود نہیں رکھی جائیں گی بلکہ دہشت گردی جہاں بھی ہو گی وہاں اتحاد سامنے آ سکتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تقریباً سبھی مسلمان ملکوں کو دہشت گردی کا سامنا ہے اور اِس کے خاتمے کے لیے مشترکہ اور منظم عملی کوششیں وقت کی ضرورت ہیں۔

جو مسلم ممالک اس اتحاد میں شامل ہوئے ہیں، ان کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔

عرب ریاستیں:

سعودی عرب، اردن، متحدہ عرب امارات، بحرین، تیونس، جبوتی، سوڈان، صومالیہ، فلسطین، جزائر کوموروس، کویت، لبنان، لیبیا، مصر، مراکش، موریطانیہ اور یمن

افریقی ریاستیں:

بینن، چاڈ، ٹوگو، سینیگال، سیرالیون، گیبون، گنی، آئیوری کوسٹ، مالی، نائیجر اور نائیجیریا

ایشیائی ممالک:

ترکی، پاکستان، بنگلہ دیش، ملائیشیا اور مالدیپ