1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

داعش اور افغان فورسز کے مابین جھڑپیں، سینکڑوں خاندان بے گھر

امتیاز احمد28 جون 2016

افغانستان کے مشرق میں داعش اور افغان فورسز کے مابین گزشتہ کئی روز سے جاری لڑائی کے نتیجے میں چار سو سے پانچ سو کے درمیان خاندان بے گھر ہو گئے ہیں۔ حکومتی فورسز نے ایک سو ساٹھ جنگوؤں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1JFB7
Afghanistan Kämpfe zwischen IS und afghanischen Truppen Nangarhar viele Menschen flüchten
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Habibi

مشرقی صوبے ننگرہار کے گورنر کے ترجمان عطاء اللہ خوگیانی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ بے گھر ہونے والے خاندانوں کی صحیح تعداد معلوم کرنے کے لیےانہوں نے اپنی ٹیمیں متاثرہ علاقے کوٹ میں روانہ کر دی ہیں۔

اس ترجمان کا کہنا تھا کہ ان جھڑپوں کا آغاز گزشتہ جمعے کے روز اس وقت ہوا تھا، جب عراق اور شام میں برسرپیکار جہادی تنظیم داعش سے منسلک افغان جنگجوؤں نے ایک فوجی چوکی پر حملہ کیا تھا۔

Kot Nengarhar Afghanistan Menschen fliehen vor dem IS
تصویر: DW/O.Deedar

خوگیانی نے ان جھڑپوں کے نتیجے میں کم از کم ایک سو ساٹھ جنگجوؤں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے تاہم آزاد ذرائع سے ان ہلاکتوں کی تصدیق ممکن نہیں ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس لڑائی میں سات افغان فوجی اور پانچ شہری بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ شہریوں اور زخمی ہونے والے فوجیوں کی تعداد کم از کم تیس بتائی گئی ہے۔

خوگیانی کا مزید کہنا تھا، ’’داعش کے عسکریت پسندوں نے کوٹ کے رہائشیوں کے کم از کم نوے گھروں کو بھی جلا دیا ہے۔‘‘ اطلاعات کے مطابق علاقائی حکومت نے بے گھر ہونے والے افراد کے لیے امداد بھیجنا شروع کر دی ہے۔

Afghanistan Kämpfe zwischen IS und afghanischen Truppen Nangarhar
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Habibi

دوسری جانب ننگرہار صوبے کے گورنر سلیم خان قندوزی نے داعش پر بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالی کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ داعش کسی کی عزت نہیں کرتی۔ وہ عورتوں اور بچوں تک کو قتل کرنے سے باز نہیں آتی۔ وہ مدرسوں، اسکولوں اور مساجد تک کو تباہ کر رہی ہے۔‘‘

صوبائی پولیس سربراہ زورآور زاہد کا کہنا ہے کہ سینکڑوں کی تعداد میں پولیس اہل کار اور فوجی اس علاقے میں داعش سے نبردآزما ہیں اور علاقائی حکام نے کابل سے مزید فوجی دستے طلب کر لیے ہیں۔

کابل میں ایک اجتماع کے دوران افغان سول سوسائٹی فیڈریشن کے سربراہ صادق انصاری نے مقامی حکومتی اہل کاروں پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ داعش کے خطرے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ننگرہار کے حکام کو ’’ہر خون کے قطرے کا حساب دینا چاہیے تاکہ دوسرے صوبوں کے حکام کو اس سے سبق حاصل ہو۔‘‘

ماہرین کی جانب سے بارہا توجہ دلانے کے باوجود افغان حکومت داعش کے خطرے کو اتنی اہمیت نہیں دے رہی جتنا کہ وہ طالبان کو دیتی ہے۔